السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بریڈ فورڈ سے محمود حسین لکھتے ہیں کہ میری پھوپھی صاحبہ قبیلے کے بنیادی حقوق کے بارے میں سمجھنا چاہتی ہیں کہ ایک عورت پر اس کے قبیلے کے کیا کیا حقوق عائد ہوتے ہیں یعنی اس کے خاوند کے’ بھائیوں کے ’ بہنوں کے اس پر کیا حقوق ہیں اور اس کے ساس و سسر کے اس پر کیا حقوق ہیں اور دیگر رشتہ داروں کے اس پر کیا حقوق ہیں ۔ اسی طرح اس کے اس پر کیا حقوق ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں عائلی و اجتماعی نظام زندگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور ایک صحیح متوازن اور معتدل تب ہی وجود میں آسکتا ہے جب باہمی حقوق و فرائض کا پورا پورا لحاظ کیا جائے۔ اسی لیے اسلام رشتہ داروں اور خاص طور پر قریبی عزیزوں کے حقوق کی نگہداشت کی بڑی تاکید کرتا ہے اور حق تلفی یا قطع رحمی کی مذمت کرتاہے ۔خاوند اور بیوی کا رشتہ سب سے قریبی اور مضبو ط ہے اس لئے ان کے باہمی حقوق و فرائض بھی زیادہ اہمیت رکھتےہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگہبان اور ذمہ دار ہے اور اپنی زیر نگرانی لوگوں کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ حاکم نگہبان ہے اور عورت خاوند کے گھر اور اولاد کے بارے میں ذمہ دار ہے ا س سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر محافظ اور مسئول ہے۔ (بخاری و مسلم)
اب خاندان اور قبیلے میں جس قدر کوئی زیادہ ذمہ دار ‘ بااختیار اور نگرانی کرنے والا ہے’اسی قدر اس کی اللہ کے ہاں جوا ب دہی بھی ہوگی ۔ اسلام نے مرد کو اس لحاظ سے فوقیت دی ہے کہ وہ نان ونفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اور باہر کے کام کاج زیادہ تر اس کے سپر د ہوتے ہیں جب کہ عورت کو اس لحاظ سے فوقیت و اہمیت ہے کہ گھریلو معاملات خصوصاً اولاد کی تعلیم وتربیت کی زیادہ تر انحصار اس پر ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا نہیں کرے گی تو گھر کی ملکہ بننےکا اسے کوئی حق نہیں ہوگا۔وہ گھر کی ملکہ اسی شکل میں ہے جب وہ گھر کےنظام کو صحیح طورپر چلائے اور اس کے ساتھ خاوند کی اطاعت اور اس کے حقوق کی ادائیگی کا بھی پورا خیال رکھے کیونکہ خاوند کو جو عورت کی تمام ضروریات پورا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے’ اس کے بعد عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی پسند و ناپسند رضا و ناراضگی کا خیال رکھے۔
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس عورت کی موت اس حالت میں آٗئی کہ اس کا خاوند اس پر راضی تھا تو ایسی عورت جتنی ہے۔‘‘ (ترمذي کتاب الرضاع باب ماجاء فی حق الزوج ۱۱۶۱)
عورت کے لئے ہرگز روا نہیں کہ وہ اپنے گھر اور مال میں خاوند کے مشورے یا اجازت کے بغیر کوئی تصرف کرے ۔ا س کے لئے یہ بھی غیر پسندیدہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں سےتعلقات قائم کرے یا ایسے لوگوں کو گھر آنے کی اجازت دے جنہیں خاوند پسند نہیں کرتا ۔ اسلام جس طرح زندگی کے ہر معاملے میں اعتدال کو پسند کرتا ہےاسی طرح عائلی زندگی میں بھی وہ میانہ روی چاہتا ہے اور یک طرفہ ٹریفک کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت تو خاوند کے سارے حقوق پورے کرے لیکن خاوند کو اپنے فرائض کی خبر تک نہ ہو یا وہ بالکل ان کی پرواہ تک نہ کرے اور عورت کی محض گھر کی نوکرانی سمجھ کراس سے جانوروں کی طرح برتاؤ کرے بلکہ اسلام عورت کے بارے میں مردوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عورتوں کو برابر کا شریک سمجھیں اور ان کی رائے مشورے اور بات کو برابر کی اہمیت دیں۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبے میں بھی عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان کے مقام و وقار کے تحفظ کی تاکید فرمائی ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اکم المؤمنین ایمانا احسنهم خلقا و خیارکم خیارکم لنسائهم۔‘‘ (ابوداؤد کتاب السنة باب الدلیل علی زیادة الامیان و نقصانه ۴۶۸۲‘ دارمی کتاب الرقاق باب فی حسن الخلق ۲۷۹۲)
’’ایمان میں زیادہ کامل وہ ہیں جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں اور تم میں بہتر ہیں وہ جو اپنی عورتوں کے لئے بہتر ہیں یعنی ان سے اچھا سلوک کرتےہیں۔‘‘
خاوند اور بیوی دونوں کے لئے ساس و سسر والدین کی مانند ہیں۔ ان کا ادب و احترام ان کے لئے اسی طرح لازمی اور ضروری ہے جس طرح وہ اپنے والدین کا احترام کرتےہیں اور ساس وہ سسر کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھ کراسے محبت و شفقت دیں۔ اسی طرح لڑکی کے والدین کے لئے داماد اپنے لڑکوں کی طرح ہے وہ اس کے لئے محبت و پیار کے ایسے ہی جذبات رکھیں جیسے اپنے لڑکوں کے بارےمیں رکھتےہیں اگر یہ طرز عمل اپنا لیا جائے اور عائلی زندگی میں اسلامی حقوق و فرائض کاپوری طرح پاس کیا جائے تو ہماری بے شمار خاندانی چپقلشیں اور پریشانیوں دور ہوسکتی ہیں۔
عورت جس قبیلے میں آتی ہے اس گھر یا خاندان کے تمام اقرباء کے حقوق اسے معلوم ہونے چاہئیں ۔ اگر پہلے ان سے کوئی رشتہ نہ بھی ہو تب بھی اس نئے رشتے کے بعد خاوند کے تمام رشتہ داروں سے اس کی درجہ بدرجہ رشتہ داری قائم ہوجائے گی۔ اسے ان تمام کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ اسی طرح خاوند کے لئے بھی یہ لازم ہے کہ وہ عورت کے رشتہ داروں سے درجہ بدرجہ ان تعلقات کی پاسداری کرے جن کی اسلام تاکید کرتاہے۔ میں نے درجہ بدرجہ اس لئے کہا ہے کہ خاندان و قبیلے کے جتنےبھی لوگ ہیں ان سے تعلق رشتے کی قریبی یا دوری کے مطابق ہوگا جو زیادہ قریبی ہوگا اس کا حق بہرحال زیادہ ہوگا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ سے صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ
’’یا رسول الله من احق بحسن الصحبه قال امک ثم امک ثم امک ثم ابوک ثم ادناک ادناک۔‘‘ (بخاري کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة (۵۹۷۱) مسلم کتاب البر ولصلة باب برالولدین و انها احق به (۲۵۴۸)
’’کہ اے اللہ کے رسولﷺ حسن سلوک میں سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟آپﷺ نے فرمایا تمہاری والدہ۔پھر تمہاری والدہ پھر تمہاری والدہ پھر تمہارے والد پھر جو جتنا قریب ہے۔‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہ کہتے ہیں کہ جو رشتے توڑتا ہے(یعنی رشتہ داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتا ) میں نے بھی اس سے تعلق توڑ دیااور جو رشتہ جوڑتا ہے میں بھی اس سے تعلق جوڑتا ہوں ۔‘‘(ابوداؤد دکتاب الذکاۃ باب فی صلة الرحم (۱۶۹۴)
بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جو قریبی رشتہ داروں کو صدقہ و خیرات دیتا ہے یا ان کی مدد کرتا ہے اس کے لئے دو اجر ہیں۔ ایک اس صدقے کا اور ایک رشتہ داری کا۔
ایک اور حدیث سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اپنے والدین یا اقرباء کے جو دوست ہیں ان کا بھی آپ پر حق ہے اور ان سے حسن معاملہ اور نیکی کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ خود رسول اکرم ﷺ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد ان کی سہیلیوں کو تحائف پورے اہتمام سے بھیجاکرتے تھے۔
بہرحال قبیلے اور خاندان کے اندر تمام لوگوں سے حسن سلوک اور ادب و تعظیم ضروری ہے اور ان کے حقوق باہر کے لوگوں سے زیادہ ہیں۔ ہاں البتہ جہاں خاندان و قبیلہ میں اسلامی احکام کی پابندی کا فقدان ہو اور وہ شریعت کی مخالفت کرتےہوں ان کے مقابلے میں دور کے دیندار اور نیک صالح زیادہ بہتر حق دار ہیں اور وہی اصل رشتہ دار ہیں۔ خونی رشتہ دار اگر دین کے احکام جھٹلاتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی پابندی نہیں کرتے تو ایسے لوگوں سے اگر محض اللہ کی رضا کے لئےرشتہ ختم کردیا جائے تو یہ جائز ہوگا۔یہ قطع رحمی میں داخل نہیں۔ حقوق و فرائض کا سارا نظام قبیلے کے انہی رشتہ داروں کے لئے ہے جو اسلام کی تعلیمات کو دل وجان سے تسلیم کرنے کے بعد ان پر عمل بھی کرتے ہیں اور جو دین سے دور ہوں وہ رشتہ داری سے بھی دورہی ہوتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب