سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(214) فرض غسل میں بالوں کا دھونا ضروری ہے؟

  • 14064
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1015

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک بہن برمنگھم سے دریافت کرتی ہیں کہ غسل کرنا جب ضروری ہےتو بالوں کے علاوہ اگر باقی  سارا جسم پانی سے تر کر لیا جائےتو فرض ادا ہوجائے گا یا بالوں کا دھونا بھی ضروری ہے۔ یا سر کےبالوں پر اگر تر ہاتھوں کے ساتھ مسح کرلیا جائے تو کیا وہ کافی نہیں ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فرض غسل یا غسل جنابت میں مرد اور عورت دونوں کےلئے پورے جسم پر پانی ڈالنا ضروری ہے۔ اگر جسم کا کوئی حصہ  بھی خشک رہا تو غسل صحیح نہیں ہوگا او ر اس حالت میں کوئی نماز اور عبادت قبول نہیں ہوگی۔ خاص طور پر بالوں کےبارے میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کےمطابق بالوں کی جڑوں تک(یعنی چمڑے تک) اگر پانی نہیں پہنچتا تو غسل ادا نہیں ہوگا۔ مسئلہ یہ  نہیں کہ عورتیں بالوں کو کھلا چھوڑیں یا باندھ کر رکھیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پانی بالوں اور چمڑے کوتر کرے۔

جہاں تک بالوں پر مسح کرنے کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہےبلکہ غسل کا حکم دیا گیا ہے اور غسل کامعنی معروف ہے۔ اس میں مسح کا ذکر نہیں ہے ہاں اگر کوئی شرعی  عذر ہو یعنی بیماری کی وجہ سےیا یہ خطرہ ہے کہ اگر سر دھویا گیا تو تکلیف بڑھ جائے گی۔ یاسر میں ایسا زخم ہے جس میں تکلیف بڑھ جانےکا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں مسح جائز ہوگا لیکن بغیر کسی عذر یامجبوری کےغسل جنابت میں سر کےبالوں پر مسح کافی نہیں ہوگا۔

فرض غسل کے علاوہ جہاں تک عام غسل کا تعلق ہے تو اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی آدمی یاعورت جسم کےکسی حصے کو نہیں دھونا چاہتے اورضروری صفائی کرلیتےہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ غسل کرتے وقت پہلے وضو کرنا بہتر ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص463

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ