سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(208) مٹی کے سوا کسی اور چیز سے تیمم کرنا

  • 1406
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1831

سوال

(208) مٹی کے سوا کسی اور چیز سے تیمم کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مٹی کے سوا پتھر، ریت، چونہ وغیرہ سے تیمم جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 قرآن مجید میں ہے۔ (فتیمموا صعیدا طیبا) قصد کو صعید پاک کا۔ اس آیت میں صعید کے ساتھ تیمم کا حکم ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ صعید کیا شئے ہے؟ صراح میں ہے۔ «عن الفراء صعید خاک قال ثعلب وجه الارض» یعنی فراء کہتے ہیں صعید مٹی کو کہتے ہیں۔ ثعلب کہتے ہیں روئےزمین کو کہتے ہیں۔ قاموس میں ہے۔ الصعید التراب اووجه الارض یعنی صعید کے معنی مٹی کے ہیں یا روئے زمین کے۔

تفسیر فتح البیان میں ہے:

«الصعید وجه الارض سواء کان علیهم تراب ام لم یکن قاله الخلیل وابن الاعرابی والزجاج قال الزجاج لا اعلم فیہ خلافا بین اهل اللغة وقال الفراء هو التراب وبه قال ابوعبیدة انتهٰی ملخصا» (فتح البیان جلد2 ص248)

ائمہ لغت سے امام خلیل۔ امام ابن العرابی۔ امام ابواسحاق زجاج کہتے ہیں کہ صعید روئے زمین ہے۔ امام ابواسحاق زجاج یہ بھی کہتے ہیں۔ میرے علم میں اہل لغت میں ا س کی بابت اختلاف نہیں اور امام فراء رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں صعید مٹی ہے اور امام ابوعبیدہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ چونکہ صعید کے معنی میں اختلاف ہے اس لیے  تیمم میں بھی اختلاف ہوگیا۔ تفسیر فتح البیان میں اس محل میں لکھا ہے:

«وقد اختلف اهل العلم فیها یجزئ التیمم به فقال مالک وابوحنیفة والثوری والطبرانی انه یجزئ بوجه الارض کله ترابا کان او رملا او حجارة وقال الشافعی واحمد و اصحابهما انه لا یجزئ التیمم الا بالتراب فقط۔»

’’یعنی امام مالک رحمہ اللہ علیہ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ، امام ثوری رحمہ اللہ علیہ، امام طبرانی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں روئے زمین کے ساتھ تیمم درست ہے۔ خواہ مٹی ہو یا ریت ہو یا پتھر ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ علیہ، امام احمد رحمہ اللہ علیہ او ران کے اصحاب رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مٹی کے سوا کسی اور شئے سے تیمم درست نہیں۔‘‘

تاج العروض شرح قاموس میں  ہے:

«وقال الشافعی لا یقح اسم صعید الاعلی تراب ذی غبار فاما البطحاء الغلیظة والرقیقة والکثیب الغلیظ فلا یقع علیه اسم صعید وان خالطه تراب او صعید (1)او مدریکون له غبارکان الذی خالطه الصعید ولا تیمم بالنورة وبالکحل و بالزرنیخ وکل هذا حجارة قال ابواسحاق الزجاج و علی الانسان ان یضرب بیدیه الاهن ولا یبالی اکان فی الموضع تراب اولم یکن لان الصعید لیس هو التراب انما هو وجه الاهن ترابا کان اوغیره۔»

’’امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں صعید صرف اس مٹی کو کہتے ہیں جس پرغبار ہو۔ زیادہ پتھریلی او رہلکی پتھریلی زمین اور سخت ٹیلہ اس کو صعید نہیں کہتے۔ اگر مٹی یا میدان یا وٹوں میں غبار ہو تو وہ صعید ہے اور چونے اور سُرمے اور ہڑتال سے تیمم جائز نہیں یہ سب پتھر ہیں او رزجاج رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں مٹی ہو یا غیر مٹی ہو تیمم جائز ہے کیونکہ صعید روئے زمین کو کہتے ہیں مٹی کی خصوصیت نہیں۔‘‘

منیۃ المصلی میں ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ او رمحمد رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک مٹی ، ریت، پتھر، ہڑتال، سُرمہ، مردہ سنگ ، چونا، گیری اور اسی قسم کی دیگر اشیاء سے تیمم جائز ہے۔ کیونکہ زمین کی جنس سے ہیں۔ سونے چاندی، لوہے قلعی سے جائز نہیں۔ اگرچہ زمین میں پیدا ہوتے ہیں لیکن آگ سے پگھل جاتے ہیں۔ اس لیے زمین کی جنس میں شامل نہیں رہے اسی طرح گیہوں اور دیگر غلہ جات سے تیمم جائز نہیں ہاں اگر ان اشیاء پر غبار ہو تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک اور ایک روایت میں امام محمد رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک پختہ اینٹ سے تیمم جائز ہے او رامام محمد رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ کوٹی ہوئی ہوتو جائز ہے ورنہ نہیں۔ اسی طرح نمک کے ساتھ بھی تیمم جائز ہے۔ مگر اس میں شرط ہے کہ پہاڑی نمک ہو پانی کا نہ ہو۔ اور شمس الائمہ سرخسی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں، نمک سے جائز نہیں خواہ کسی قسم کا ہو اور شور زمین کا حکم بھی نمک کا ہے او رکیچڑ کے ساتھ تیمم کرنا نہ چاہیے۔ اگر کرلے تو جائز ہے ۔ روڑی کنکر، گول پیالے (مٹکے) اور اس قسم کی دیگر اشیاء جو مٹی سے تیار ہوتی ہیں اور ان پر قلعی نہ چڑھائی ہو ان سب سے تیمم جائز ہے خواہ ان پر غبار ہو یا نہ۔ اسی طرح راکھ کے ساتھ تیمم جائز ہے لیکن اس میں شرط ہے کہ اس میں مٹی زیادہ ہو او رراکھ کم ہو۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک جن اشیاء کے ساتھ تیمم جائز نہیں ان پر غبار ہونے  کی صورت میں تیمم جائز ہے ۔ ملاحظہ ہو منیۃ المصلی ص23۔24)

ایک حدیث میں ہے۔ «جعلت لی الارض مسجدا و طهورا» (بلوغ المرام) ’’یعنی میرے لیے زمین مسجد اور طہور بنائی گئی‘‘ اور ایک روایت مسند احمد وغیرہ میں ہے ۔« جعلت لی الارض کلها ولامتی مسجدا او طهورا» (سبل السلام ص56) ’’یعنی ساری زمین میرے لیے اور میری امت کے لیے مسجد اور طہور بنائی گئی ہے۔‘‘ طہور کے معنی ہیں پاک کرنے والی۔ یہ حدیث امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے مذہب کو تائید دیتی ہے۔ سبل السلام میں اس حدیث کو ذکر کرکے کہا ہے کہ مسلم کی بعض روایتوں میں«جعلت تربتها طهورا »آیا ہے یعنی ’’زمین کی مٹی طہور بنائی گئی ہے۔‘‘ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ پتھر وغیرہ سے تیمم جائز نہیں کیونکہ  اس حدیث میں خاص مٹی کا ذکر آیا ہے او رپہلی حدیث میں عام آگیا اور اصول میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خاص کا ذکر عام کی نفی نہیں کرتا نیز یہ مفہوم لقب(2) ہے اس کا اعتبار نہیں۔

اس کے بعد سبل السلام میں لکھا ہے:

«نعم فی قوله تعالیٰ فی اٰیة المائدة فی التیمم منه دلیل علی ان المراد التراب و ذٰلک ان کلمة من للتبعیض کما قال فی الکشاف حیث قال انه لا یفهم احد من العرب من قول القائل مسحت براسه من الدهن ومن التراب الا معنی التبعیض انتهٰی والتبعیض لا یتحقق الافی المسح من التراب لامن الحجارة و نحوها» (سبل السلام ص56)

یعنی حدیث «جعلت تربتها طهورا» سے تو استدلال ٹھیک نہیں آیہ مائدہ سے استدلال صحیح ہے کیونکہ اس میں کلمہ من ہے جو ایک حصہ پر دلالت کرتا ہے جیسے کشاف میں لکھا ہے کہ جب عرب کہتے ہیں میں نے سر پر تیل سے ملا یا مٹی سے ملا تو اس سے عرب یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے کچھ حصہ سر پر ملا اور ظاہر ہے کہ پتھر یا اس کی مثل پر مسح کرنے پر ہاتھ منہ پر کچھ نہیں لگتا پس معلوم ہوا کہ صعید سے روئے زمین مراد نہیں۔

یہ صاحب سبل السلام کی تقریر ہے۔ لیکن میرے خیال میں صاحب سبل السلام نے جو حدیث سے استدلال صحیح نہیں کہا یہ ٹھیک نہیں کیونکہ مسلم کی بعض روایتوں میں یہ الفاظ ہیں:

«جعلت لنا الارض کلها مسجد او جعلت تربتهالنا طهوراً ذالم نجد الماء وفی روایة وجعل ترابهالنا طهورا»( فتح البیان جلد2 ص248)

یعنی ’’رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنائی گئی اور اس کی مٹی ہمارے لیے طہور بنائی گئی ہے۔‘‘

اس  حدیث میں مسجد کے لیے ساری زمین کہا ہے اور طهور کے لیے اس کی مٹی کو خاص کیا ہے اس مقابلہ سے صاف معلوم ہوتا  ہے کہ مٹی کے سوا باقی حصے سے تیمم نہیں ہوتا نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث« جعلت لی الارض کلها ولا متی مسجدا و طهورا» میں کل کا لفظ صرف مسجد کے ساتھ لگتا ہے طهورکے ساتھ نہیں لگتا گویا اصل عبارت یوں ہے۔« جعلت لی الارض کلها ولا متی مسجد او جعلت لی ولامتی طهوراً» اور اختصار میں ایسابہت ہوجاتا ہے جیسے قرآن میں اس کی نظیر موجود ہے سورہ بقر میں ہے «وقالو الن یدخل الجنة الامن کان هود او نصاریٰ۔» اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اصل عبارت یوں ہے۔« قال الیهود لا یدخل الجنة الامن کان یهود یا وقال النصاریٰ لا یدخل الجنة الامن کان نصاریٰ »(فتح البیان جلداوّل ص164)

اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ اس بات پر متفق ہیں کہ یہودی نصرانی دونوں جنت میں جائیں گے۔ لیکن  دوسری آیتوں سے ثابت ہے کہ ان میں آپس میں دُشمنی ہے اور ایک دوسرے کو گمراہ کہتے ہیں۔ ایک فریق دوسرے کے جنتی ہونے کا قائل نہیں ہوسکتا اس لیے عبارت مخدوف مانی گئی ٹھیک اسی طرح مسلم کی بعض روایتوں کی وجہ سے اس حدیث میں جعلت مخدوف مانا گیا جس کے ساتھ  کل نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ آیت مائدہ اور مسلم کی بعض روایتیں دونوں اس بات کی دلیل ہیں کہ تیمم کے لیے مٹی ضروری ہے۔

فتح البیان میں صحیح مسلم کی یہ حدیث لکھا کر لکھا ہے کہ اس حدیث سے صعید کے معنی واضح ہوگئے او راس کی تائید ابن فارس کے قول سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے کتاب الخلیل سے نقل کیا ہے جو یہ ہے« تیمم بالصعید ای خذ من غباره۔ انتهٰی۔» صعید کا قصد کر یعنی اس کا غبار لے۔ اس قول سے معلوم ہوا کہ صعید مٹی ہے۔ کیونکہ پتھر کے لیے غبار نہیں۔ ملاحظہ ہو فتح البیان جلد2 ص248۔ نیز مسلم کی حدیث میں مٹی کا ذکر اس اُمت کی تشریف اور بزرگی کے لیے ہوا ہے اگر ساری زمین سے تیمم  صحیح ہوتا تو مٹی کو خاص نہ کیا جاتا۔ ملاحظہ ہو عون الباری لحل ادلة البخاری ص105۔

اس کے علاوہ مٹی کے ساتھ تیمم بالاتفاق جائز ہے او رباقی جنسوں میں اختلاف ہے اس لیے نٹی ہی پر اکتفا کرنا چاہیے کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اس میں جتنا احتیاط ہو تھوڑا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب


(1) کتاب الام امام  شافعی میں یہ لفظ نہیں بلکہ اس میں یوں ہے: وان خالطہ تراب او مدریکون له غبارکان الذی خالطه هو الصعید (کتاب الام جلد اوّل ص43 طبع مصر 12)

(2) مثلاً زید عمرو آپس میں دوست ہیں ایک شخص کہتا ہے میرے پاس زید آیا اس سے اگر کوئی یہ سمجھے کہ عمرو نہیں آیا اسے مفہوم لقب کہتے ہیں۔ اصولی اس کا اعتبار نہیں کرتے صاحب سبل السلام کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی بہت سی جنسیں ہیں ایک کے ژکر سے دوسری کی نفی نہیں ہوئی۔12

فتاویٰ اہلحدیث

تیمم کا بیان، ج1ص287 

محدث فتویٰ

تبصرے