سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(203) مروجہ عرس و گیارہویں کیوں جائز نہیں؟

  • 14053
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3231

سوال

(203) مروجہ عرس و گیارہویں کیوں جائز نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برمنگھم سے محمد بشیر نقشبندی لکھتے ہیں کہ بصد احترام و آداب میں عرض کرنا  چاہتا ہوں کہ کچھ عرصہ پہلے آپ نے عرس حضرت ہجویری پر کچھ اعتراض کیا اور  گیارہویں شریف پر بھی اور اس کا پروف چاہتے ہیں۔ نقشبندی صاحب آگے لکھتے ہیں:

کہ یہ چیزیں جن پر آپ اعتراض کرتے ہیں آپ کے پیشوا حضرت شاہ ولی اللہ کے مکتوبات اور نواب صدیق حسن بھوپالی کی تصنیف الداء والدواء سے حوالہ دوں گا۔

اس کے بعد ایک دو واقعات نقل کرتے ہیں۔ ایک میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خواب کو بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بہت سے اولیاءاللہ  کو حلقہ باندھ کر مراقبہ میں بیٹھے دیکھا جن میں خواجہ نقشبند دوزانو اور حضرت جنید تکیہ لگا کر بیٹھے ہیں اور سب استغناء ماسوااللہ اور کیفیات فنا میں ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ سب حضرات حضرت علیؓ کے استقبال کے لئے جارہے ہیں۔ حضرت علیؓ کے ساتھ اس موقع پر حضرت اویس  قرنیؓ بھی ہیں۔ ایک حجرہ نہایت صاف تھا۔ اس میں یہ بزرگ داخل ہو گئے ۔ وہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ آج غوث الثقلین کا عرس ہے۔

ایک واقعہ شاہ عبدالرحیم ؒ کا لکھا ہے کہ وہ خواجہ باقی باللہ کے عرس کا منظر بتاتے ہیں کہ کوئی ان کے سامنے چاول کوئی گوشت اپنے ذمہ لیتا اور کوئی کہتا میں فلاں قوال لاؤں گا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نقشبندی صاحب کے طویل خط کا خلاصہ ہم نے نقل کردیا ہے۔ ان کا سوال یہ ہے کہ جب مذکورہ بزرگان دین (جن کو انہوں نے ہمارے پیشوا کہاہے)یہ کام کرتے ہیں تو آپ کیوں نہیں مانتے یا اس طرح کے کاموں کو ناجائز اور بدعت کیوں سمجھتے ہیں ۔ اصل موضوع توعرس اور گیارہویں کی شرعی حقیقت ہے لیکن اس سے پہلےمیں چند امور کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں تاکہ نقش بندی صاحب کی ذہن میں جو شبہات ہیں ان کے ازالے میں آسانی رہے۔

(۱)انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ آپ کے پیشوا حضرت شاو ولی اللہ تو اس سلسلےمیں گزارش ہے کہ ہمارے ہادی و پیشوا تو سروردوعالمﷺ کے ذات اقدس ہے۔ شریعت ان پر نازل ہوئی ہے نہ کہ شاہ ولی اللہ پر۔ ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے  کہ غلطیوں سے پاک اور مبرا صرف انبیاء کرام ہیں انہیں بذریعہ وحی براہ راست اللہ تعالیٰ کی راہنمائی حاصل ہوتی ہے جب کی کسی بھی امتی کو یہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا اور دوسروں سے اجتہادی غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ بلاشبہ تمام ائمہ دین‘ محدثین ‘ اولیا ء کرام اور علماء امت قابل احترام ہیں۔ ہر مسلمان کے لئے ان کا ادب و احترام ضروری ہے لیکن نبی کریمﷺ کے فرمان کے مقابلے میں ان کی بات چھوڑی بھی جاسکتی ہے جبکہ آپ کی کسی ایک بات کا انکار بھی کفر ہے۔

(۲)ہاں علماء دین کی ایسی باتیں جن میں نصیحت  و خیر خواہی ہو اور حضور اکرم ﷺ کے فرامین کےمطابق و موافق ہوں ایسی باتوں کو ضرور قبول کرنا چاہئے لیکن اصل پیشوا کا مقام سرکار دو عالم کو حاصل ہے۔

(۳)ا س لئے میرے بھائی ہم شاہ ولی اللہ اور نواب صدیق حسن خان کی ہر بات ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ یہ شان سوائے رسول اللہ ﷺ کے اور کسی کو حاصل نہیں۔

(۴)یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ نقشبندی صاحب نے یہاں اپنے موقف کی بنیاد ایک خواب پر رکھی ہے۔ بھائی صاحب دین یا شریعت کا کوئی مسئلہ کبھی بھی خواب کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے سامنے جب کائنات کی سب سے عظیم ہستی کی ۲۳ سالہ زندگی کی واضح روشن اور کامل بیداری کی ہدایت موجود ہے تو یہاں ہمیں کسی خواب کا سہارا لینے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ آج کل کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ قرآن و صحیح احادیث چھوڑ کرمن گھڑت قصوں خوابوں اور کہانیوں پر اعتماد کیاجاتا ہے جب کہ بزرگان دین کا تو یہ حال تھا  کہ وہ سند کے بغیر احادیث بھی قبول نہیں کرتے تھے اور پھر عقائد کےلئے تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ مگر یہاں یہ حال ہے کہ عقائد کے معاملے میں بھی جھوٹے ’فضول اور من پسند خوابوں ہی کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ آج کل کے زیادہ تو واعظ بھی قرآن و حدیث کی بجائے شعروشاعری اور موضوع قصوں ہی سے عوام کا دل بہلاتے ہیں۔

(۵)اگر خوابوں پر دارو مدار ہو تو یہودونصاری کے علاوہ بت پرست اور آتش پرست بھی اپنے مذہب کی حقانیت کےلئے جو خواب بیان کرتے ہیں انہیں بھی ماننا ہوگا۔ مرزاغلام احمد قادیانی بھی شروع میں خواب ہی بیا ن کیا کرتے تھے۔ اس لئے خواب جس بزرگ کو آئے یہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے دوسرے کے لئے کسی کا خواب ہر گز شرعی حجت یا دلیل نہیں بن سکتا۔

(۶)ہمارے لئے اصل راہنمائی  کے دو صاف اور شفاف  چشمے ہیں وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم نے حجۃ الوداع کے معقع پر اپنے تاریخی خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے لئے دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت جب تک ان دونوں پر مضبوطی سے قائم رہو گے تم کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے۔

ایک دوسری حدیث حضرت عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک نماز کے بعد رسول اللہﷺ نے ہمیں وعظ فرمایا ۔ اس حدیث میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی فرماتےہیں میرے بعد جب تم زیادہ اختلاف دیکھو گے تو میر ی اور میرے صحابہ کی سنت پر مضبوطی سے قائم رہنا۔

اور پھر صحابہ کرامؓ کے زمانے میں یہ حال تھا کہ اگر حضورﷺ کی بات کے مقابلے میں وہ کسی دوسرے کی بات سنتے تو اسے ہرگز قبول نہ کرتے۔

ان ضروری باتوں کی وضاحت کے بعد اب نقشبندی صاحب غور کریں کہ کیا رسول اللہﷺ اور  صحابہ کرامؓ کے زمانے میں مروجہ عرس یا گیارہویں جیسی کسی رسم کا دور دور تک بھی نشان ملتا ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہؓ نے آپﷺ کا عرس کیا؟ تو کیا نعوذباللہ یہ ساری پاک ہستیاں عرس کی نیکیوں اور سعادتوں سے محروم ہی رہی ہیں۔ ہماری یہی دعویٰ ہے کہ یہ کھانے پینے کی رسمیں اور عوام کا مال بٹورنے کے بہانے ہیں اور ہم ایسی کوئی بات قبول نہیں کرسکتے جس کا ثبوت قرآن و حدیث یا عمل صحابہ سے پیش نہ کیا جائے بلکہ اس کے برعکس مروجہ عرسوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے بارے میں رسول اکرمﷺ کے واضح فرامین موجود ہیں۔ اب نقشبندی سے گزارش ہے کہ وہ درج ذیل احادیث پر خلوص و دیانت سے غور کریں اور پھر خود ہی فیصلہ فرمائیں۔

پہلی حدیث:   لا تجعلو ا قبری عیدا۔ (مشکوہ کتاب الصلاة باب الصلاة علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و فضلھا رقم ۹۲۶ بحوالة نسائي۔ ابو داؤد کتاب المناسک باب زیارة القبور ۲۰۴۲)حلقہ بند

 ’’میری قبر کو عید گاہ نہ بناؤ‘‘۔

اب عید کا معنی ہے بار بار لوٹ کر آنا۔ ہر وہ جگہ عید ہے جہاں لوگ باربار جاتے ہیں اور وہ زمانہ اور وقت عید ہے جس میں کوئی کام باربار کیا جاتاہے ااور ہر وہ مجمع عید ہے جو بار بار اکٹھا ہوتا ہے۔ صحابہ اکرامؓ نے حضور اکرمﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل کی اور کبھی بھی آپ کی قبرپر مجمع نہیں لگایا نہ وہاں کبھی لنگر تقسیم ہوئے اور نہ کبھی وقت مقرر کرکے وہاں میلے کی شکل بنانے کی اجازت دی۔ وہ آپ کی قبر پر جاتے تو عزت و وقار سے سلام پڑھ کر واپس تشریف لے آتے۔ دوسری طرف اپنے میلوں اور عرسوں کا حال بھی نقشبندی صاحب کے سامنے ہے کہ مسلمان کس ذوق و شوق سے ایسےمیلوں میں جاتے ہیں اور پھر وہاں کن خرافات و منکرات میں مبتلا ہوتے ہیں اور مردوں و عورتوں کے اختلاط سے کیا کیا خرابیاں رونما ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں چونکہ بزرگان دین کی قبریں تو ہم ساتھ نہیں لاسکے لیکن ان کےناموں کے بورڈ لگا کر یہاں دربار قائم کردیئے اور قبروں کی بجائے مساجد میں عرس شروع کردیئے اور ایسی مساجد میں جب عرس ہوتے ہیں تو لوگ وعظ و نصیحت کے شوق کی بجائے زیادہ ترکھانے پینے کا ذوق پورا کرنے جاتے ہیں۔ جس کے بے شمار شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔ بشیر صاحب کہیں یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے اس حدیث میں لفظ عید کا ترجمہ درست نہیں کیا’اس لئے ہم ان کے بزرگ مشہور عالم و مفسر قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی کی وضاحت نقل کرتےہیں جو حنفی مسلک کے جید عالم ہیں اور اہل حدیث دیوبندی اور بریلوی میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔

قاضی ثناء اللہ صاحب لکھتے ہیں:

لا یجوز ما یفعله الجهال بقبور الاولیاء الشهداء من السجود والطواف حولها واتخاذالسرج والمساجد الیها ومن الاجتماع بعدا لحول کالا عیاده یمونه عرسا۔ (تفسیر مظهری ۶۵/۲)

ترجمہ’’ جاہل لوگ حضرات اولیاء و شہداء کےمزارات پر جو کچھ کرتے ہیں وہ سب ناجائز ہے۔ ان کو سجدہ کرنا‘ان کے گردطواف کرنا‘ان پر چراغاں کرنا‘ اور ان کی طرف سجدے کرنا اور ہر سال میلوں کی طرح ان پر جمع ہونا جس کا نام عرس ہے‘ یہ سب ناجائز ہیں۔‘‘ اب یہاں قاضی صاحب نے عید کا معنی عرس ہی لیا ہے۔

دوسری حدیث:   بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ام جنید اور حضرت ام سلمہ ؓ نے حبش کے دو ایسے گرجاؤں کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا جس میں انہوں نے تصاویر دیکھی تھیں تو اس پر آپﷺ نے فرمایا:

’’ان اولئک اذا کان فیهم الرجل الصالح فمات بنوا علی قبره مسجدا وصورواتلک الصورة اولئک شرار الخلق عندالله یوم القیامة۔‘‘(فتح الباري ج ۳ کتاب الجنائزة باب بناء المساجد علی القبرص ۵۶۹ رقم الحدیث ۱۳۴۱)

’’ان لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مرجاتا ہے تو اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں اور نیک بندوں کی تصویریں نقش کرلیتے ہیں یہی لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین  مخلوق ہوں گے۔‘‘

آج کے دور سے رسول اللہ ﷺ کا یہ سچا فرمان کتنی مطابقت رکھتا ہے۔ میں نے برطانیہ کے ایک شہر میں اپنی آنکھوں سے ایک پیر صاحب کی فوٹو پونڈوں کے عوض فروخت ہوتی دیکھیں اور بیچارے مرید دھڑا دھڑ خرید بھی رہےتھے۔

تیسر ی حدیث:   مؤطا امام مالک ؒمیں ہے:

’’ان رسول الله ﷺ قال اللهم لا تجعل قبری وثنا یعبد اشتد غضب الله علی قوم اتخذوا قبور انبیاءهم مساجد۔‘‘  (مسند احمد ۲۴۶/۲’موطا کتاب قصرا لصلاة فی السفر رقم الحدیث ۸۵ باب جامع الصلاة )

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا! اے اللہ میری قبر کو بت کی طرح نہ بنانا ‘جس کی پوجا کی جائے اس قوم پر اللہ کا سخت عذاب آئے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نےا ٓپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کے روضہ اطہر کو ان خرافات سےمحفوظ رکھا۔

چوتھی حدیث:   مسلم شریف میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

الا و ان من کان قبلکم کانوا تیخذون قبورا انبیائهم و صالحیهم مساجدا الا فلا تتخذوا القبور مساجد انی انها کم عن ذالک۔(مسلم مترجم ج ۱ کتاب المساجد باب النهی عن بناء المساجد علی القبور ص ۱۰۵)

’’خبردار ہو۔ تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ خبردار تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔ میں تمہیں اس سےمنع کرتا ہوں۔‘‘

نقشبندی صاحب کو ہم بتا سکتے ہیں کہ کتنے مزاروں اور درباروں پر زندہ و مردہ بزرگوں کو سجدے کئے جارہے ہیں۔

پانچویں حدیث:    ابن ماجہ‘ترمذی ‘نسائی‘اور ابوداؤد کی حدیث ہے:

عن ابن عباس رضی الله عنه قال لعن رسول الله ﷺ زائرات القبور والمتخذین علیها المساجد والسرج۔ (سنن نسائي مترجم ج ۱ کتاب الجنائز باب التغلیظ في اتخاذ السرج علی القبور ص ۸۲۰ رقم الحدیث ۲۰۴۷)

’’حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی قبروں پر جانے والی عورتوں پر اور ان پر بھی جو قبروں کی مسجدوں کی طرح بنالیتےہیں اور ان پر جو وہاں چراغ جلاتےہیں۔‘‘

کتنے پیارے طریقوں سے سرور کونین ﷺ نے بار بار تنبیہ فرمائی۔ اگر مسلمان اب بھی اس پر توجہ نہ دیں تو غور کیجئے کہ روح پاک پر کیا گزرے گی؟

ہم اب فیصلہ نقشبندی صاحب پر چھوڑتے ہیں کہ وہ رسول ا للہ کی صحیح اور سچی باتیں مانتےہیں یا شاہ ولی اللہ کے خواب اور نواب صدیق حسن خان اور شاہ عبدالرحیم کے نقل کردہ واقعات؟

یہاں تک تو ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ وضاحت کردی ہے کہ مروجہ عرس کا قرآن و سنت سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان موقعوں پر ہونے والے بیشتر اعمال رسو  ل اکرم ﷺ کی تعلیمات کی خلاف ہیں لیکن نقشبندی صاحب نےا پنے خط میں چونکہ بزرگان دین کے اقوال کے حوالے دیئے ہیں اس لئے ان کی مزید تسلی اور اطمینان کے لئے ہم بھی شاہ صاحب کا قول پیش کرتےہیں جس سے زیر بحث موضوع اور ان علماء امت کا موقت بھی واضح ہوجاتا ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

نقش بندی صاحب  نے عرس کے بارے میں شاہ صاحب کا ایک خواب بیان کیا ہے جبکہ عالم بیداری میں شاہ صاحب کے ارشادات بحوالہ ان کے سامنے پیش کرتےہیں ۔ شاہ صاحب اپنی عظیم الشان اور معرکہ آراء کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں لکھتےہیں:

لا تجعلو زیارة قبری عیدا اقول هذا اشاره الی سد مدخل التحریف کما فعل الیهود والنصاری بقبور انبیاءهم و جعلوها عیدا ماسما بمنزلة الحج۔ (حجةالله البالغه ص ۷۷ ج ۲ طبع مصر)

میں کہتا ہوں کہ آپﷺ نے جو یہ فرمایا کہ میری قبر کی زیارت کو عید نہ بناؤ‘ اس میں اشارہ ہے کہ تحریف کا دروازہ بند کردیا جائے کیونکہ یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاء کی قبروں کو حج کی طرح عید ومیلہ بنا دیاتھا۔

اپنی دوسری کتاب میں شاہ صاحب تحریر کرتےہیں:

ومن اعظم الیدع ما اختر عوا فی امر القبور واتخذوها عیدا۔بححب (تفہیمات الٰہیه ج ۲ ص ۶۴)

بڑی بدعتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں نے قبروں کے بارے میں بہت سی باتیں اپنی طرف سے بنالی ہیں اور قبروں کو میلہ گاہ بنالیا ہے۔

میرے خیال میں نقشبندی صاحب کے لئےشاہ صاحب کے خواب سے ان کی بیداری کی باتیں زیادہ قابل اعتماد ثابت ہوں گے۔

انہوں نے آخر میں جو یہ لکھا ہے کہ شاہ عبدالعزیزؒ کے دادا کے وقت بھی مزارات پر عرس منایا جاتا تھا’ یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ ہمارے لیے سند اور دلیل تو رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے وقت کی بات ہوگی نہ کہ شاہ صاحب کے دادا صاحب کےوقت کی۔

باقی گیارہویں کے بارےمیں ہم اس سے پہلے تفصیل سے بحث کرچکے ہیں کہ اس رسم کی بھی کوئی اصل نہیں۔ خودمنانے والوں کی اکثریت کو اس کے شان نزول کا پتہ نہیں اور پھر بات بھی سوچنےکی ہے کہ ایک خاص تاریخ کو گھر والے مل کر کھیر کھالیں یا مسجد میں نمازی جمع ہو کر گیارہ تاریخ کو زردہ پلاؤ سے پیٹ بھر لیں تو اس سے کسی غریب کو کیا فائدہ یا کسی روح کو ثواب پہنچنے کا کیا احتمال ہے؟ یہ تو سب کھانے پینے کے ڈھنگ ہیں بھائی۔ شریعت محمدی میں اس کا کوئی نہ اصل ہے نہ ثبوت۔ اللہ تعالیٰ ضد اور تعصب کے بغیر ہم سب کو حق سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق دے۔آمین!

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص441

محدث فتویٰ

تبصرے