سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(202) برتھ ڈے اور شادی کی سالگرہ کی شرعی حیثیت

  • 14052
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5489

سوال

(202) برتھ ڈے اور شادی کی سالگرہ کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ویمبلے (مڈل سیکس ) سے نزیر احمد تحریر کرتے ہیں : مندرجہ ذيل امور کے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں تسلی بخش جواب دیں تا کہ جملہ قارئیں اس سے مسفید ہوسکیں۔

۱۔وہ مسلمان جو پیغمبر اسلام ﷺ کا یوم میلاد منانا قرآن و سنت سے استدلال کرکے بدعت اور خلاف شروع قرار دیتا ہے لیکن اپنے بچوں کا برتھ ڈے اور شادی کی سالگرہ اہتمام اور خوشی سے مناتا ہے اور وہی مسلمان کسی دوسری برتھ ڈے پر شرکت کرتا ہے اس کے انتظام میں آگے آگے ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے متعلق قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ اس کا یہ طرز عمل اسلامی ہے یا غیراسلامی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱۔حدیث نبعی ﷺ کی روشنی میں بدعت کی تعریف یہ ہے کہ دین میں کسی ایسی نئی بات کا اضافہ کرنا جس کی آپﷺ کی زندگی میں کوئی دلیل نہ ہو حالانکہ بعد میں نہ کوئی ضرورت پیدا ہوئی  اور نہ ہی آپ کے زمانے میں اس کام کے کرنےمیں کوئی امر مانع تھا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

"من احدث فی امرنا هذا مالیس منه فهو رد۔"(صحیح البخاري کتاب الرقاق باب الانتھاء عن المعاصي)

’’جو شخص ہمارےدین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے گا جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہوگی۔‘‘

اس حدیث میں ’’اس معاملے‘‘ کے جو الفاظ ہیں ان سے واضح ہوگیا کہ دینی معاملات میں اجروثواب کی نیت سے اور اللہ کا قرب تلاش کرنے کی غرض سے جو نیا کام کیا جائے گا وہ بدعت ہوگا اور دینی معاملات میں اپنی طرف سے اضافہ بدعت ہوگا اور ہر بدعت گمراہی ہے۔بعض لوگ جہالت سے کہہ دیتے ہیں کہ موٹر کار عینک اور ٹوپی وغیرہ یہ بھی نئی چیزیں ہیں تو کیا یہ بھی بدعت ہیں؟ یہ چیزیں اس لئے بدعت شمار نہیں ہوں گی کہ یہ دین میں اضافہ نہیں اور کوئی بھی  شخص ان چیزوں کے استعمال میں ثواب نہیں ڈھونڈتا اور نہ ہی انہیں قرب الہٰی کا ذریعہ سمجھتا ہے اس لئے کہ یہ  ضروریات زندگی مین سے ہیں جنہیں دین میں زیادتی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس بیناد پر اگر کوئی شخص کسی نئے کام کو بدعت قرار دیتا ہے جیسے مروجہ میلاد وغیرہ تو وہ صحیح موقف اختیار کرتا ہے۔ جہاں تک برتھ ڈے اور سالگرہ منانےکا تعلق ہے۔ یہ ایک ماڈرن بدعت ضرور ہے لیکن بدعت کی شرعی تعریف اس پر صادق نہیں آتی کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے بیٹے کی برتھ ڈے اور شادی کی سالگرہ ثواب کی نیت سے یا قرب الہٰی کی غرض سے نہیں کرتا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ کام اب جائز ہوگیا ہے۔ بلکہ ایک لحاظ سے  یہ بدعت سے بھی سنگین ہےکیونکہ یہ غیر مسلموں خصوصاً یہود و نصاریٰ کی تقلید میں کیا جاتا ہے اور غیروں کی تقلید اور ان کی مشابہت کو نبی کریمﷺ نے سخت گناہ قرار دیا ہے۔ برتھ ڈے سالگرہ پھر ان مواقع  ر کیک کاٹنا موم بتیاں جلانا اور بجھانا اس طرح کی تمام خرافات مسلمان غیر مسلموں سےلے رہے ہیں۔ یہ روش مسلمانوں کےاسلامی تشخص کےلئے تباہ کن ہے۔

نبی کریم ﷺ نے متعدد مناسبتوں سے ارشاد فرمایا کہ:

’’خالفوا الیھود و النصاری۔‘‘

’’کہ یہود و نصاریٰ کی تقلید کی بجائےان کی مخالفت کرو۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا

’’من تشبه بقوم فهو منهم۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی ج ۹ ص ۱۵۱ رقم الحدیث ۸۳۲۳)

’’جو شخص کسی دوسری قوم (غیر مسلم ) کی مشابہت اختیار کرے وہ ان ہی میں‘‘

غیروں کی تقلید میں کئے جانے والے یہ کام ایک لحاظ سے بدعت قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ مسند احمد کی ایک حدیث ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا :

’’ماابتدا ع قوم بدعة الانزع الله عنهم  من السنة مثلها۔‘‘ (تفهیمات الهیة ج ۲ ص ۶۴)

’’کوئی قوم جب بدعت جاری کرتی ہے تو اللہ اس کے بدلے میں ان سے سنت اٹھا لیتے ہیں۔‘‘

اور بچوں کی پیدائش اور دوسری  مناستبوں سے ڈے منانے والے یہ لوگ سنتوں کو ترک کرتے ہیں۔ بچے کے کان میں میں اذان‘ اس کے بال کٹوانے اور عقیقہ جیسی سنتوں سے محروم کردیئے جاتے ہیں کیونکہ ان کی جگہ انہوں نے انگریزوں کی سنتوں کو اپنا لیا ہوتا ہے۔

رہی یہ بات کہ جو شخص ایسی تقریبات میں شرکت کرتا ہے اس کی کیا پوزیشن ہوتی ہے تو ظاہر ہے بدعت اور معصیت کے کسی کام میں شرکت اس سے تعاون کے مترادف ہے۔ اس لئے ایس تقریبات میں عمومی طور پر شرکت جائز نہیں۔

ہاں اگر کوئی شخص اس نیت سے شریک ہوتا ہے کہ وہاں تبلیغ کرے گا یا اس مروجہ رسم سے انہیں روکنے کی کوشش کرے گا تو یہ الگ بات ہے اور جو شخص ایسی تقریبات میں  ذوق و شوق سے شریک ہوتا ہے بلکہ ان کا اہتمام کرتا ہے تو اس کے اس فعل کو اسلامی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص439

محدث فتویٰ

تبصرے