سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(199) بدعت کے مختلف روپ

  • 14049
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1177

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب صبح صادق جہلمی تحریر کرتےہیں: جیسا کہ آپ ’’صراط مستقیم‘‘ کے صفحات میں بدعات پر روشنی ڈالتے رہتےہیں اور دیکھنے میں آتا ہے کہ ہر شہر میں کئی مساجد  ہیں جہاں یہ بدعات زوروں پر ہیں ۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان علماء کرام کو یہ بدعتیں نظر نہیں آتیں۔ اگر آتی ہیں تو قوم کو پاکستان میں اور معصوم لوگوں کو اس ملک میں یہ لوگ کیوں گمراہ کررہےہیں۔ اس کے پیچھےکیا  مقاصد کارفرماہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے تفصیل سےجواب طلب کیا ہے اس موضوع پر ’’صراط مستقیم‘‘ میں مفصل مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ اگر آپ اپنا پورا ایڈریس تحریر کریں تو ہم آپ کو وہ مضامین ارسال کردیں جن میں ان اسباب و وجوہ کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کی بناء پر علماء خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا ذریعہ بنتے ہیں۔

یہاں اختصار سے چند باتیں عرض کرتےہیں کہ علماء سوء ہر دور میں رہے ہیں۔ یہودونصاریٰ سے لےکر مسلمانوں تک ہر دور میں ایسے علماء آپ کو نظر آٗئیں گے جنہوں نے دین کو بطور پیشہ اور کاروبار استعمال کیا اور اس کےلئے انہوں نے علم و شرافت کی دھجیاں بکھیر یں اور دنیا کے اموال جمع کرنے کےلئے لوگوں کو خوش کیا۔

حق بات کہنے کی بجائے ایسی باتیں کیں اور ایسے مسائل لوگوں کوبتائے جن سےلوگ خوش ہوں اور مولوی حضرات کی جیبیں بھی بھر جائیں۔

اس سلسلےمیں قرآن حکیم کی دو آیتیں اور رسول اکرمﷺ کی دو حدیثیں تحریر کرتاہوں اگر وقت ملے تو ان کی تفسیرو تشریح کا مطالعہ ضرور کیجئے۔

(۱)﴿اتَّخَذوا أَحبارَ‌هُم وَرُ‌هبـٰنَهُم أَر‌بابًا مِن دونِ اللَّهِ ...﴿٣١﴾... سورةالتوبة

’’انہوں نےاپنے عالموں اور درویشوں (پیروں ) کو اللہ کےسوارب بنالیا۔‘‘

حدیث میں آتاہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عدی بن حاتم نے عرض کیا کہ اللہ کےرسول میں بھی ان لوگوں میں اسلام سے پہلے شامل رہاہوں۔ وہ اپنے علماء اور مذہبی  پیشواؤں کو رب تو نہیں مانتے۔

اس پر آپﷺ نے فرمایا:

’’ کیوں نہیں ۔ تم یہ بتاؤ کہ جسے وہ حلال کرتے تھے تم اسے حلال سمجھ لیتے تھے۔ وہ جسے حرام ٹھہراتے تم اسے (آنکھیں  بند کرکے) حرام سمجھ لیتے۔‘‘

آج کل کےعلماء سوء اور جاہل عوام کا معاملہ آپ کو اس سےمختلف نظر نہیں آئے گا۔

(۲)دوسری آیت ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّ كَثيرً‌ا مِنَ الأَحبارِ‌ وَالرُّ‌هبانِ لَيَأكُلونَ أَمو‌ٰلَ النّاسِ بِالبـٰطِلِ وَيَصُدّونَ عَن سَبيلِ اللَّهِ ...﴿٣٤﴾... سورةالتوبة

’’اے  ایمان والو! بہت سے عالم اور درویش ناحق طریقے سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سےروکتے ہیں۔‘‘

ا ب اللہ کی راہ سے بظاہر تو کوئی عالم یا پیر نہیں روکتا لیکن جب لوگوں سے ناحق مال بٹورے گا سادہ لوح عوام کو توہم پرستیوں میں مبتلا کر کے ان سےنذرانے وصول کرے گا تو ظاہر ہے کہ پھر وہ صحیح دین کیسے بتاسکتا ہے وہ تو خرافا ت و توہمات اور بدعات کے ذریعہ ہی اپنا کاروبار چلائے گا۔ ایسا شخص اپنے کاروبار کے ذریعے گویا کہ لوگوں کو اللہ کے راہ سےروک رہا  ہے۔

یہ بھی علماء اور مذہبی پیشواؤں کے بارےمیں ہے۔

(۳)نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ :

’’اللہ کی مخلوق میں سے سب سے افضل اور اعلیٰ علماء ہیں اور سب سےبر ے اور شرار بھی علماء ہیں۔ ‘‘

اس حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ علماء کےنام سے ایک ایسا گروہ ہمیشہ موجود رہے گا اور نبی کریم ﷺ نے انہیں سب سے شریر قرار دیا ہے۔

(۴)آپﷺ قیامت کے قریب کی علامات کا جہاں ذکر فرمایا  وہاں یہ بھی فرمایا کہ:

’’ ایسے جاہل علماء کے روپ میں سامنے آجائیں گےجو بغیر علم  کےدین کے مسائل بتائیں گے اور فتوے دیں گے۔‘فضلواواضلوا۔ (ترمذي مترجم ج ۲ ابواب العلم باب ماجا ء فی ذھاب العلم ص ۲۰۶)

’’خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘

ان آیات کریمہ و احادیث نبویہ سے ایسے گروہ کے بارےمیں آپ کو ضروری تعارف یقیناً حاصل ہوگیا ہوگا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص435

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ