سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(197) کیا سیاہ خضاب لگانا جائز ہے؟

  • 14047
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2924

سوال

(197) کیا سیاہ خضاب لگانا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برمنگھم سے عبدالہادی لکھتے ہیں: عرض یہ ہےکہ آپ کے ماہنامہ ’’ صراط مستقیم ‘‘ کی وساطت سے مسئلے کی وضاحت چاہتاہوں۔ مسئلہ کی وجہ دریافت یہ ہے کہ میری عمر اس وقت ۳۵ سال ہے لیکن میری داڑھی اور سر کے بال اکثر سفید ہوگئے ہیں۔ میری بیوی کی عمر ۲۴ سال ہے اور اس کے سر کےبال سیاہ۔ بیوی کے ساتھ چلتا ہوا بوڑھا دکھائی دیتا ہوں۔ بیوی اصرار کرتی ہے کہ داڑھی اور سر کو سیاہ خضاب لگالوں۔

میں مذہبی آدمی ہوں خلاف شرع کام سے ڈرتا ہوں۔ چند دوستوں کی میری پرابلم کا بتہ چلاتو انہوں نے تو تین حوالے بھی جمع کئے تا کہ میری تسلی ہو۔ وہ حوالہ جات آپ کی طرف ارسال کر رہاہوں  تا کہ حوالہ جات کی تصدیق ہوسکے۔

(۱)تیسراالباری ترجمہ و تشریح صحیح بخاری ‘از مولانا وحید الزماں صاحب جلد ۳ باب المناقب صجحہ ۵۸۱

جب زیادبن عبیداللہ کے پاس حضرت امام حسین ؓ کا سرمبارک لایا گیا تو سر اور داڑھی کے بال سیاہ خضاب سے رنگے ہوئے تھے۔

مولانا وحید الزماں صاحب اس حدیث کے حاشیہ میں لکھ رہے ہیں کہ اس سے سیاہ خضاب لگانے کا جواز ثابت ہوا۔

(۲)فتاویٰ عالمگیر ی جلد نہم صجحہ ۱۰۵ پر مرقوم ہے:

غیر حالت جنگ میں بھی خضاب کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

امام ابو یوسف کا قول ہے کہ  ’’جس طرح میں چاہتا ہوں میری بیوی میرے لئے زینت کرے اسی طرح میری بیوی بھی چاہتی ہے کہ اس کے لئے زینت کروں‘‘

(۳)عن ابی هریرة قال قال رسول اللہﷺ غیرواالشیب ولا تشبهوابالیهود۔ (مشکوة للالبانی کتاب اللباس باب الترجل ص ۱۲۶۶ رقم الحدیث ۴۴۵۵)

(۴)وعن ابی هریرة ان النبی ٓﷺ قال ان الیهود والنصاری لا یصبغون فخالفوهم ۔ (مشکوٰة المصابیح للالبانی ج ۲ باب الترجل ص ۱۲۶۱ رقم الحدیث ۴۴۲۳)

جو چند دوست سیاہ خضاب کے خلاف ہیں’وہ کہتے ہیں سب سے پہلےسیاہ خضاب فرعون نے لگایا ‘لہٰذا ناجائز ہے۔

آپ براہ کرم صراط مستقیم میں صحیح وضاحت فرما کر ہم جیسے جوان بوڑھوں کےلئے کوئی آسان راستہ متعین فرمائیں تا کہ گھریلو زندگی پرسکون رہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب: سیاہ خضاب کے بارے میں صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ناجائز ہے اور نبی کریمﷺ نے اس سے واضح الفاظ میں منع فرمایا ہے او ر اس سلسلے میں ذیل کی احادیث خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

(۱)حضرت ابو بکر صدیق کے والد حضرت ابوقحافہؓ کے بارے میں جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ انہیں فتح مکہ کے دن حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو ان کے سر اور داڑھی کے بال ثفامہ (ایک قسم کی سفید گھاس ) کی طرح سفید ہوچکے تھے تو آپﷺ نے فرمایا:

’’غیرو اهذا واجتنبو االسواد‘‘

’’اسے تبدیل کردو مگر سیاہ رنگ سے دور رہنا۔‘‘

(۲)حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’آخری زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی جو سیاہ خضاب لگائے گی جس طرح کبوتر کے سینے سیاہ ہوتے ہیں ایسی قوم جنت کی خوشبو تک نہ پائے گی۔‘‘

(۳)حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں خضاب کے بارے میں مختلف احادیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خضاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ جس خضاب کی اجازت دی گئی ہے وہ سیاہ رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ ہیں۔ اس لئے کہ سیاہ خضاب کے بارے میں مرفوع و موقوف احادیث سے عدم جواز واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔سیاہ خضاب کے جواز میں ابن ماجہ کی یہ حدیث عام طور پر پیش کی جاتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تمہارے خضابوں میں سے بہتر خضاب سیاہ خضاب ہے اس سے تمہاری عورتوں کو رغبت تمہاری طرف زیادہ ہوتی ہے اور تمہاری ہیبت تمہارے دشمنوں پر زیادہ ہوتی ہے۔

اول: تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ مولانا عبدالرحمن  مبارک پوری نے تحفتہ الاحوذی میں لکھا ہے کہ اس میں دوراوی ضعیف ہیں۔ اس لئے یہ قابل استدلال نہیں ہوسکتی۔

دوم: اگر اس حدیث کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس میں سیاہ خضاب لگانے کی اجازت اس شکل میں ثابت ہوتی ہےجب میدان جنگ میں کوئی شخص اپنے آپ کو جوان بہادر ثابت کرنا چاہئے تا کہ دشمن پر اس کا رعب طاری ہو تو ایسی صورت میں وہ اپنے بڑھاپے کو چھپا سکتا ہے یا پھر قبل از وقت بال سفید ہوگئے یعنی چھوٹی عمر میں بڑھاپے کی عمر شروع ہونے سے پہلے کسی وجہ سے سفیدی آگئی تو اس کےلئے بھی اجازت کی گنجائش اس حدیث سے نکالی جاسکتی ہے۔

جہاں تک ان تین دلیلوں کا تعلق ہے جو آپ نے اپنے خط میں تحریر کی ہیں تو ان میں جو سیدنا حضرت حسین بن علیؓ کے سفید بالوں کے سیاہ خضاب سےرنگین ہونے کا واقعہ ہے اگر اسے درست تسلیم کرلیا جائے تو وہ میدان جنگ میں ایک  ضرورت کے تحت تھی اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتا اور پھر یہ  واقعہ یا فتاویٰ عالمگیری کا فیصلہ یا حضرت امام یوسف ؒ کا قول یہ سارے دلائل صحیح احادیث کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔جب مسلم شریف کی صحیح حدیث میں آپ نے سیاہ رنگ استعمال کرنے سے منع فرمادیا ہے تو اس کے بعد ان دلائل  کاپیش کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کی جس حدیث میں آپ نے یہودونصاریٰ کی مخالفت کر کے رنگ لگانے کا حکم دیا ہے اس میں بھی سیاہ خضاب کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لئے اس حدیث سے بھی استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

بہرحال صحیح احادیث سے سیاہ خضاب لگانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ حضرت امام نوویؒ نے تو اسے حرام قرار دیا ہے۔ حالت جنگ میں جواز موجود ہے اس  طرح اگر کسی کے بچپن میں بال سفید ہوجاتےہیں یا جوانی میں بوڑھا ہوجاتا ہے تو ایک گھریلو ضورت کے تحت اس کے لئے بھی جواز کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے لیکن اصل میں سیاہ خضاب لگانے کی اجازت بہرحال نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص431

محدث فتویٰ

تبصرے