السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بریڈ فورڈ سے عبدالحمید قاسم لکھتے ہیں : ختنے کی شرعی حیثیت کیا ہے اور بچے کا ختنہ کس عمر میں کرناچاہئے؟ اس بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ختنہ ان امور میں سے ہے جنہیں نبی کریمﷺ نے فطرت سے قرار دیا ہے ۔ وہ امور جنہیں بنیادی فطرت سے قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک تو وہ ہیں جن کا تعلق دل سے ہے۔ وہ ایمان و یقین ہے۔ وہ ایمان ہے جس سے دل کے اند ر تزکیہ وصفائی پیدا ہویا وہ صفات جن کے ذریعے انسان کےقلب و ذہن میں طہارت و پاکیزگی پیداہو۔ انہیں فطرت ایمانی سے قرار دیا جاسکتا ہے ۔ مگر جسمانی فطرت یا وہ امور جن کا تعلق ظاہر و بدن سے ہے جیسا کہ حضرت عمار بن یاسرؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’من الفطرة المضمضة والاستنشاق و قص الشارب والسواک وتقلیم الاظافر و نتف الابط والا ستمداد والافتتان۔‘‘(سنن ابن ماجة للالبانی ابواب الطهارة ص ۵۹ رقم الحدیث ۲۹۲)
’’ یعنی فطرت میں سےجوکام ہیں ان میں کلی کرنا ’ناک صاف کرنا’مونچھوں کا کاٹنا ’ناخن کاٹنا ’بغل کےبالوں کو صاف کرنا’زیرناف بالوں کا صاف کرنا اور ختنہ کرنا۔‘‘
ختنے کی شرعی حیثیت کے بارے میں فقہاء وعلماء کی مختلف آراء ہیں بعض اسے واجب قرار دیتے ہیں جب کہ بعض کے نزدیک یہ سنت ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور امام حسن بصری اور بعض حنبلی علماء کے نزدیک یہ سنت ہے اور امام مالک ؒامام احمدؒاور امام اوزاعی ؒ کے نزدیک یہ واجب اور ضروری ہے۔
ختنے کو سنت قرار دینے والوں کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت شداد بن اوس روایت کرتےہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’الختان سنة للرجال مکرمة للنساء،‘‘(مرفوعا عن ابن عباس و اسامة و ابی ابوب بیهقی ۳۲۵/۸ العلل لابن ابی حاتم ۲۴۷/۲)
حضرت امام حسن بصری یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانےمیں جولوگ ایمان لائے ہیں ان میں سفید سیاہ فام رومی فارسی اور حبشی ہر قسم کے لوگ تھے مگر آپﷺ نےان کے اسلام قبول کرنے سے قبل کبھی یہ تفتیش نہیں فرمائی تھی کہ ان کا ختنہ ہوا ہے یا نہیں۔
ختنہ کو واجب کہنے والے کی پہلی دلیل یہ حدیث ہےجسے ابوداؤد نے حضر ت عثیر بن کلیب نے عن ابیہ عن جدہ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جب میں مسلمان ہوکر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’الق عنک شعر الکفر واختتن۔‘‘ (ابوداؤد کتاب الطهارة باب فی الرجل یسلم فیئومه بالغسل رقم ۳۵۶۔)
’’کہ کفر کی حالت کےبالوں کو صاف کرو اور ختنہ بھی کرو۔‘‘
دوسری دلیل امام زہری ؒ کی یہ روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’من اسلم فلیختتن و ان کان کبیرا‘‘
’’کہ جو مسلمان ہوا سے ختنہ کرنا چاہئے خواہ وہ عمر میں ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
حضرت امام مالکؒ کا اس بارے میں کافی سخت موقف ہے وہ فرماتے ہیں کہ جس آدمی کا ختنہ نہ ہواہو’نہ اس کی امامت جائز ہے اور نہ اس کی گواہی قبول کی جائے گی۔
کیوں کہ ان کے نزدیک ختنہ کے بغیر صحیح طہارت و صفائی کا قائم رکھناممکن نہیں اور ظاہر ہے جب صفائی اور طہارت نہیں ہوگی تو نماز کیسے ہوگی اور جس آدمی کی نماز نہیں اس کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔اگر اس کی اپنی نماز درست مان بھی لی جائے تب بھی امامت کےلئے ایسا شخص مناسب نہیں۔
امام ترمذی ؒ نے حضرت ابوایوب ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اربع من سنن المرسلین الختان والتعطر والسواک النکاح۔‘‘ (مشکوٰ ة کتاب الطهارة باب السوال الفصل الثانی رقم ۳۸۲’ترمذی کتاب النکاح باب ماجاء فی فضل التزویج والحث علیه ۱۰۸۲
’’چار چیزیں انبیاء کرام کی سنت میں سے ہیں ختنہ ‘خوشبو‘ مسواک اور نکاح۔‘‘
(ترمذی میں ’’الختان‘‘ کی بجائے ’’الحیاد‘‘ کے لفظ ہیں۔)
ان تمام روایات کاجائزہ لیا جائے تو یہ موقف قوی نظر آتا ہے کہ ختنہ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے ۔یہ عام سنتوں کی طرح نہیں ہے کیوں کہ حضوراکرمﷺ نے اس کا حکم دیا اور اسے فطرت میں سے قرار دیا او راسےاسلام کا شعار بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور مردوں کے لئے خاص طورپر یہ بہت اہم ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ بچوں کا ختنہ کس عمر میں کرانا چاہئے تو ا س بارے میں سنت میں عمر کی کسی حد کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے یہی ظاہرہوتا ہے کہ بنیادی طور پر کسی عمر میں بھی ختنہ کیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق فطرت او رجسمانی طہارت سے ہے اس لئے بلوغت سے پہلے پہلے ہی ختنہ کرناقرین عقل و قیاس ہے۔تاکہ دینی فرائض کی ادائیگی کے وقت وہ روحانی اور جسمانی طور پر تیار ہو۔
ویسے پیدائش کے کچھ دنوں کے بعد ختنہ کرنا افضل ہے ایک تواس کا تکلیف کا زیادہ احساس نہیں ہوتا ’دوسرا بڑا یا بالغ آدمی ختنہ کرنے یا ذکر سے بعض اوقات تھوڑی سے شرم بھی محسوس کرتا ہے اسلئے بچپن میں کرنا ہی اچھا ہے۔ ہاں جو شخص نیا مسلمان ہوا ہو وہ جس عمر میں اسلام لایا اسی عمر میں اس کا ختنہ ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب