السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لندن سے محمد امین تحریر کرتے ہیں کہ میرے ایک دوست کی بیوی نے یہاں کے قانون کے مطابق کورٹ کے ذریعے طلاق حاصل کرلی ہے لیکن اس کے خاوند نے نہ تو اسے طلاق دی اور نہ بیوی نے طلاق مانگی بلکہ انگلش طلاق کے بعد اس نے دوسری جگہ شادی بھی کرلی ہے ۔ کیا یہ صحیح ہے؟ شریعت کے مطابق وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کوئی بھی غیر مسلم شخص کسی کا ولی نہیں بن سکتا اور نہ ہی غیر مسلم جج اسلامی شریعت و قانون کے مطابق شادی کو ختم کرسکتا ہے۔ اگر کوئی خاوند بیوی کو ناجائز تنگ کرتا ہے اور محض پریشان کرنے کےلئے اسے طلاق نہیں دیتا تو بیوی کسی بھی اسلامی سینٹر یا ادارے سے رجوع کرسکتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے مین اس سلسلے میں کافی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں اس لئے برطانیہ میں علمائے کرام نے اس مسئلے کو خاطر خواہ طریقے سے حل کیا ہے اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے اس مسئلے کو خاطر خواہ طریقے سے حل کیا ہے اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کی نمائندہ تنظیم ’’ اسلامی شریعت کونسل ‘‘ قائم کی جاچکی ہے جو عائلی مسائل کے حل کےلئے گزشتہ چار سال سے نمایا ں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اسلامی طلاق وضع وغیرہ جیسے مسائل کے سلسلے میں خواتین اس کونسل سے رجوع کرسکتی ہیں۔
یہاںایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اصولی طور پر تو کوئی غیرمسلم جج یا عدالت اسلامی نکاح نہ توڑ سکتی ہے نہ طلاق کا حکم دے سکتی ہے لیکن اگر خاوند خود اس طرح کی عدالت کے سامنے جاکر یا تحریری طورپر طلاق دیتا ہے تو پھر انگلش طلاق کے ساتھ اسلامی طلاق بھی خود بخود ہوجائے گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب