سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(187) اہل کتاب سے نکاح کرناجائز ہے؟

  • 14037
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4922

سوال

(187) اہل کتاب سے نکاح کرناجائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مغربی جرمنی سے جناب فرید مانجر ا لکھتے ہیں: ’’ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ ایک مسلمان موجودہ زمانے میں اہل کتاب (عیسائی  کیتھولک فرقہ کی )لڑکی سے شادی کرسکتا ہے؟ شریعت  اسلامیہ اس کی اجازت دیتی ہے؟ براہ کرم اس کا جواب مفصل عنایت فرمائیں اور شرائط بھی واضح فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے نکاح کرسکتا ہے یا نہیں’اس موضوع پر اس سے پہلے متعدد بار ‘‘ صراط مستقیم ’’ میں لکھا جاچکا ہے۔ چونکہ یورپ میں آنے والے مسلمانوں کےلئے یہ ایک  اہم معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے اور آئے دن انہیں ایسے حالات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جس میں اس طرح کےسوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اسلئے ایک بار پھر ہم قدرے تفصیل کے ساتھ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اس مسئلے پر مسلمانوں کی جو آراء  مشہور ہیں وہ تین قسم کی ہیں:

اول:  اہل کتاب(یہودی ‘عیسائی) کی عورتوں سے نکاح مطلقاً حرام ہے’ کیونکہ آج کل کے عیسائی اور یہودی اہل کتاب نہیں بلکہ مشرک ہیں اور مشرک سے نکاح کی حرمت قرآنی نصوص سے ثابت ہے۔

دوم:  عیسائی اور یہودی عورتوں سے نکاح مطلقاً جائز ہے اور  اس کےلئے کوئی شرط نہیں ۔ قرآن کریم نے اس کی بلاشرط اجازت دی ہے۔

سوم: قرآن نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکا ح کی اجازت دی ہے اس لئے اس کےجواز کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے لئے چند شرائط کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ جہاں تک پہلی رائے کا تعلق ہے تو وہ اس لئے درست نہیں کہ قرآن نے بہرحال اہل کتاب سے نکاح کی اجازت دی ہے اور وہ اس لئے ہے کہ اللہ او ر رسولوں اور الہامی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان صفات کی وجہ سے وہ دوسرے مشرکوں سے الگ ہیں اور جن عقائد کی بناپر انہیں مشرک ٹھہرایا گیا یہ عقیدے وہ اس وقت بھی رکھتے تھے جب قرآن میں اہل کتاب سے نکاح کےجواز کے بارےمیں آیات نازل ہوئیں۔

دوسری رائے بھی اس لئے درست نہیں کہ اہل کتاب کی عورتوں سے مطلقاً نکاح کی اجازت اس لئے نہیں دی جاسکتی کیونکہ اگر اس میں مسلمانوں اور اسلام کا نقصان ہے یا خود مرد کے عیسائی ہونے کا خطرہ ہے تو پھر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔حضرت عمرؓ نے اسی لئے بعض صحابہؓ کو سختی سےمنع کردیا تھا۔ آپ نے فرمایاتھا کہ:

’’ میں اسے حرام نہیں سمجھتا لیکن اس کے باوجود اس کی اجازت اس لئے نہیں دے سکتا  کہ اگر یہ دروازہ کھل گیا تو مسلمان عورتوں کے حقوق پامال  ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘

اس لئے ان تینوں آراء میں تیسری رائے صحیح ’معتدل اور متوازن ہے یعنی نکاح جائز ہے لیکن بعض شرائط کے ساتھ۔

جواز کے بارے میں جو آیت قرآنی بطوردلیل پیش کی جاتی ہے اس کے اندر بھی بعض شرائط کا ذکر ہے۔ یہ سورہ مائدہ کی آیت ہے

﴿ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ المُؤمِنـٰتِ وَالمُحصَنـٰتُ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم إِذا ءاتَيتُموهُنَّ أُجورَ‌هُنَّ مُحصِنينَ غَيرَ‌ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ...﴿٥﴾... سورة المائدة

ایک شرط تو اس آیت کےپہلے لفظ میں ’’ المحصنات‘‘ ہے کہ اہل کتاب کی محصنات تمہارے لئے حلال ہیں یعنی پاک دامن عورتیں ۔اس سے ثابت ہوا کہ وہ  یہودی اور عیسائی عورتیں جو بدکردار ہوں یا فاحشہ اور آوارہ ہوں ان سے نکاح جائز نہیں۔ دوسری شرط خود اس مرد کے بارے میں ہے جو کتابیہ عورت سے نکاح کررہا ہے کہ ولا متخذی اخدان کہ مرد نہ تو زناکار ہوں اور نہ ایسی عورتوں سے خفیہ تعلقات رکھنے والے ہوں یعنی نکاح سے قبل اعلانیہ یا خفیہ ایسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق نہ ہو۔ کیونکہ اس سے بدکاری کے جواز کا دروازہ کھلے گا اور اس فحش و منکر سے نفرت ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اس شرط کی پابندی ضروری ہے۔

تیسری شرط یہ ہے کہ مرد اپنے دین اور عقیدے پر پختگی کےساتھ قائم ہو۔ اگر صورت حال یہ ہے کہ اسے خود اپنے دین کے مبادی کا بھی علم نہیں اور یہ خطرہ ہے کہ عیسائی عورت اسے اپنے مذہب میں لے جائے گی یا اسے اسلام سے اور دور کردے گی  اور بعد میں اولاد پر بھی مرد سے زیادہ اس عورت کا اثر ہوگا تو ایسے مرد کےلئے بھی جائز کہ وہ کتابیہ سے شادی کرے۔

چوتھی شرط یہ بھی ہے کہ یہ عورت عیسائیوں اور یہودیوں کے معروف عقائد پر کاربند ہو۔ اگر کوئی عورت عیسائی تو کہلاتی ہے لیکن خدا کا انکار کرتی ہے’ کسی رسول اور کسی الہامی کتاب پر ایمان نہیں رکھتی تو ایسی عورت سے نکاح جائز نہ ہوگا۔

اسی طرح بعض علماء نے ایسے حالات میں بھی کتابیہ سےنکاح جائز نہیں کیا جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان سخت عداوت  کی فضا ہو یا حالت جنگ میں ہوں  کیونکہ ایسے حالات میں یہ خطرہ ہے کہ ان عورتوں کے ذریعے مسلمانوں کے راز دشمنوں تک پہنچ جائیں اور یہ عورتیں مسلمانوں کو شکست دینے کےلئے دشمنان اسلام کے آلہ کار کا کردار ادا کریں ۔ اسی لئے اکثر ائمہ نے عمومی حالات میں کراہت کے ساتھ جواز کا فتویٰ دیا ہے۔

مصر کے مرحوم مفتی شیخ محمد شلتوت نے یہان ایک بڑی اہم بات کہی ہے:

’’ اذا ضعف الرجال وجب المنع ‘‘

’’اذا کان الله قد حرم علی المسلمة ان تنزوج بالکتابی صوناعن التائر بسلطان زوجها و قوامته علیها فان السلام بری ان المسلم اذ شذ عن مرکز الطبیعی فی الاسرة بحکم ضعفه القومی والقی بمقالید امره بین یدی زوجة غیر المسلمة وجب منعة من التزوج بالکتابیة و یوجب فی الوقت نفسه علی الحکومة التی تدین بالاسلام و مبادته بالذوجة و تفار علی قومیتها و شعائرها فی ابنائها ان تضع لهولاء الزین ینسلخون عن مرکزهم الطبیعی في الاسرة حدا یردعهم عن غیهم ‘‘

وہ اس عنوان کے تحت ’’ جب مرد کمزور ہوں تومکمل ممانعت ہے‘‘ لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے جب مسلمان عورت کے لئے اہل کتاب مرد سے نکاح حرام قراردیا ہے تو اس کہ وجہ یہ ہے کہ غیر مسلم خاوند اس پر غالب ہوگا اور اس کا اس پر حکم چلے گا تو اس لئے اسلام میں جو مرد اسلامی خاندانی مرکز سے دور ہوگیا کیوں کہ اس کا قومی و ملی جذبہ ماند پڑگیا ہے اور اس نے اپنے معاملات ایک غیر مسلم عورت کے سپر د کر دیئے ہیں تو اس کے لئے کتابی عورت سے نکاح مکمل طور پر منع ہے۔ ایسے حالات میں ایسی حکومت جو اپنے بیٹوں کے سلسلے میں اپنی قومیت اور اپنے شعائر کے ازدواجی اسولوں کی پابندی کرنے والی ہے ‘ اس پر فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کےلئے غیر مسلموں سے شادی کی کوئی حد مقرر کرے جو اسلامی طبیعی خاندانی مرکز سے نکلنا چاہتے ہیں‘‘

بہرحال بنیادی طور پر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہے لیکن اسن شرائط کی پابندی ضروری ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے کیونکہ اسلام تو مسلمان عورتوں سے رفیقہ حیات کے انتخاب میں سخت ہدایات دیتا ہے کہ نیک صالح اور باکردار عورتوں سے نکاح  کرو تو ظاہر ہے کہ اہل کتاب جو غیر مسلم ہیں ان کی عورتوں سے نکاح کی کھلی چھٹی کیسے دے سکتا ہے۔ اس لئے صحیح  بات یہی ہے کہ اذا اضعف ا لرجال وجب المنع کہ جب مرد کمزور ہوجائیں۔ (عقیدے و دین میں )تو پابندی ضروری ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص398

محدث فتویٰ

تبصرے