سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(186) کیا عیسائی اور یہودی عورت کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے؟

  • 14036
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 4226

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حاجی محمد لطیف مڈلز برو سے مندرجہ ذیل سوالات کےجوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں دریافت کرتے ہیں۔

(۱)اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ (عیسائیوں )کی عورتیں سے نکاح تو جائز ہے جیسا کہ بعض علماء دین قرآنی آیات کا حوالہ دے کرثابت کرتے ہیں۔ کیا نکاح کرلینے کے بعد انہیں مسلمان کرلینا شرط نہیں ہے؟ اور اگر وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتی ہیں تو پھر اگر کسی مسلمان کی عیسائی بیوی یا یہودی عورت اپنے مروجہ عقیدے یا رواج و عادات کےمطابق شراب اور خنزیر کھاپی لیتی ہے اوربوائے فرینڈ بھی رکھے اور اس کے ساتھ دیگر غیر شرعی کام بھی کرتی رہے تو کیا مسلمان خاوند پر کوئی گناہ نہ ہوگا؟ اگر گناہ ہے تو پھر نکاح کیسے جائز ہوگا۔ کیونکہ گناہوں سے بچنے کےلئے تو شریعت تشکیل دی گئی۔ بعض علماء دین احادیث کے حوالوں سے فرماتے ہیں کہ ایک عورت چار آدمیوں کو جہنم میں لے جائےگی۔ تو کیاایسی عورت اس سے مستثنیٰ ہے یا بصورت دیگر ایسی احادیث کا کوئی مقام نہیں؟

(۲)کیا آج کل کے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ عیسائی) مشرکین ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو مشرکین عورتیں سے مسلمان کا نکاح کیسے جائز ہے؟

(۳)کیا آج کل کے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ عیسائی)مشرکین ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو مشرکین عورتیں سے مسلمان کا نکاح کیسے جائز ہے؟

(۳)کیا آج کل کے اہل کتاب اس زمرے میں آتے ہیں جن سے قرآن نے نکاح جائز قرار دیا ہے یا اس وقت کے اہل کتاب آج کل کے اہل کتاب سے مختلف تھے؟

(۴)کیا نزول قرآن کے وقت اہل کتاب  مشرکین نہیں تھے اور آج کل کے اہل کتاب کی طرح شراب اور خنزیر کھاتے پیتے نہ تھے اور تین خداؤں یعنی تثلیث کے قائل نہ تھے؟

(۵)کیا آج کل کے اہل کتاب کی عورت سے نکاح  کرنے سے پہلے کوئی عمل یا شرط لازمی ہے جس کےبغیر نکاح جائز نہیں؟

(۶)مشرکین کی تعریف کیا ہے؟ ہم نے تو سناتھا کہ وہ شخص جو خدا پر ایمان بھی رکھتا ہو مگر اس کےساتھ ساتھ   کسی اور کو بھی شریک  کرتا ہو اسے مشرک کہتے ہیں۔مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں مگر بتوں کی پرستش  اس لئے کرتا ہوں کہ وہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ یا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے یا چھوٹے خدا(نعوذباللہ) ہیں یعنی اللہ کی خدائی میں شریک ہیں تو یہ ہو  ا شرک جو آج کل کے یہود و نصاریٰ کررہےہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)بنیادی طورپر اہل کتاب یعنی یہود اور عیسائی سے شادی کرنے کی اجازت کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے لیکن کون سے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز ہے’ اس بار ے میں سلف کے دو قول ہمارے سامنے ہیں۔

ایک یہ کہ اہل کتاب سے مراد یہاں وہ ہیں جو تثلیث کا عقیدہ  نہ رکھتے ہوں۔حضرت عیسیٰؑ حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا نہ کہتے ہوں ‘ان کی عورتوں سے  تو نکاح جائز ہے لیکن اگر وہ یہ عقیدہ رکھتے ہوں تو پھر وہ مشرک ہیں اور مشرک عورتوں سے نکاح حرام ہے۔ اس لئے اس طرح کے اہل کتاب کی عورتوں سے بھی نکاح حرام ہے۔ اس قول کی تائید میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا یہ قول بھی پیش کیا جاتا ہے جسے امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے کہ ’’ لا اعلم شرکا اعظم من ان تقول ربھا عیسی‘‘ (فتح الباری ج ۱۰ کتاب الطلاق باب قوله تعالی ولا تنکحو االمشرکات ص ۵۲۲ رقم الحدیث ۵۲۸۵)

کہ حضرت عیسیٰ کو خدا بنالینا سے بڑا شرک اور کیا ہوسکتا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اہل کتاب سے چاہے ان کے عقائد کیسے بھی ہوں ان سے شادی حرام تو نہیں مگر اس میں کراہت ضرور ہے اور اسے پسند نہیں کیا گیا۔ا س سلسلے میں حضرت عمر فاروق کا یہ فرمان پیش کیا جاتا ہے کہ جب حضرت حذیفہؓ نے ایک یہودی عورت سے شادی کی تو حضرت عمرؓ نے ان کو لکھا کہ ‘‘ خل سبیلھا ‘‘ ’’اسے فوراً الگ کردیں‘‘ تو انہوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا  اتزعم انھا حرام فاخلی سبیلھا کیا آپ مجھے اس لئے چھوڑنے کا حکم دے رہے ہیں کہ حرام ہے؟ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا "لا ازعم انھا حرام ولکن اخاف ان تعاظلواالمومنات منھن" ’’میں حرام تو نہیں سمجھتا لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اس طرح تم مومن عورتوں میں دلچسپی لینا چھوڑ دوگے۔‘‘

ایک روایت میں ہے آپؓ نے کہا کہ جب مسلمان عیسائی یا یہودی عورتوں سے شادی کرنا شروع کردیں گے تو پھر مسلم عورتوں کا کیا بنے گا اس لئے میں یہ پسند نہیں کرتا۔

امام ابن کثیرؒ نے ابن جریرؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ بنیادی طور پر اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنے کے جواز پر تقریباً اتفاق ہے۔

مختلف اقوال کے دلائل کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں جہاں کتابی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیا گیا ہے وہاں اس شرط کا ذکر نہیں کہ وہ تثلیث یا ابن اللہ کے عقیدے نہ رکھتی ہوں ۔ بلکہ جواز کی اصل علت ان کا اہل کتاب ہونا ہے چاہے وہ حضرت عزیر یا حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا سمجھیں۔ لیکن جب تک وہ الہامی کتابوں اور رسولوں پر ایمان رکھتی ہیں ان سے نکاح جائز ہے کیونکہ اس دور میں بھی جب قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی تھیں عیسائیوں کے یہ عقائد بہرحال معروف تھے۔

ہاں البتہ اس آیت میں کچھ اور شروط ہیں جن کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔ آیت کا پہلا لفظ ہی یہ ہے ’’والمحصنات ‘‘ یعنی اہل کتاب کی محصنات تمہارے لئے حلال ہیں اور محصنات کا معنی ہے پاک دامن ’یعنی وہ یہودی یا عیسائی عورتیں جو کردار کے لحاظ سے پاک دامن ہوں اور شرم و حیا کے زیور سے آراستہ ہوں۔ وہ آوارہ ’بد کردار اور شمع محفل بننے والی عورتیں نہ ہوں۔ جن سے تعلقات کا آغاز گناہ سے ہو اور پھر انجام نکاح ہو۔ ایسی عورتیں ‘‘ محصنات ’’ سے خارج ہیں اور یہ پہلی اور بنیادی شرط ہے۔

دوسری شرط مرد کے بارے میں ہے کہ ﴿غَيرَ‌ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ...﴿٥﴾... سورةالمائدة

مرد بھی نہ تو فحاشی کا ارتکاب کرنے والے ہوں اور نہ ہی ان سے خفیہ تعلقات رکھنے والے ہوں یعنی ان سے شادی سے قبل اعلانیہ یا خفیہ برائی کا تعلق قائم نہ ہو۔اس کے علاوہ مرد دینی طورپر اس قدر پختہ بھی ہوکہ کتابیہ سے شادی کرنے کے بعد  وہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اسلام پر قائم رکھ سکے۔ ایسے مردوں کوتو کسی حالت میں عیسائی عورتوں سے شادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو پہلے ہی کمزور ایمان والے ہیں اور شادی کے بعد ایمان کی باقی پونجی بھی اس عورت کی نذر کردیں اور اپنی اولاد کو بھی عیسائی بنادیں۔

جیسا کہ حاجی صاحب نے لکھا ہے کہ وہ عورت جو حرام کھاتی پیتی ہے اور اپنے دوست بھی رکھتی ہے اور دیگر خلاف شریعت  کام بھی کرتی ہے اور اس کانہ صرف مرد پرگناہ ہوگا بلکہ ایسی عیسائی عورت سے کسی مسلمان کو سرے سے شادی ہی نہیں کرنی چاہئے۔

اسی طرح اس عورت سے بھی شادی ہرگز جائز نہیں جو عیسائی کہلاتی ضرور ہے لیکن وہ نہ خدا کو مانتی ہے نہ کسی نبی پر ایمان رکھتی ہے اور نہ کسی مذہب اور کتاب پر یقین رکھتی ہے اور ایسی عورت اہل کتاب میں شمار نہیں ہوگی ۔

(۲)اس سوال کا جواب پہلے حصے میں آگیا ہے کہ شرک کے کام کرنے یا عقیدے رکھنے کے باوجود اگر آج کل کے عیسائی یا یہودی خدا’نبی ’مذہب اور کتاب کو مانتے ہیں تو وہ اہل کتاب ہوں گے کیونکہ کسی رسول کےماننے اورکسی آسمانی کتاب کی طرح نسبت کرنے کی وجہ سے ہی تو  انہیں اہل کتاب کہاگیا۔

(۳)رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی اہل کتاب کی اکثریت کے دہی عقائد تھے جو آج ہیں۔

(۴)اس بارے میں شروع میں وضاحت کردی ہے کہ ان عقائد اور اعمال کے باوجود کتاب اور نبی کی طرف نسبت کرنے کی وجہ سے اسلام نے ان کی حیثیت دوسرے مشرکین اور کفار سے الگ رکھی ہے۔ کیونکہ دوسرے مشرک اور کافر سرے سے کسی الہامی دین کے قائل ہی نہیں اور کوئی کتاب چاہے (تحریف شدہ ہی ہو)ا ن کے پاس نہ تھی۔

(۵)مشرکین کی تعریف جو سوال میں لکھی گئی ہے وہ تقریباًدرست ہے ۔ یہود و نصاریٰ کے کفروشرک کے باوجود اس نے مختلف معاملہ کرنے کی اصل وجہ ان کا اہل کتاب ہونا ہے۔ اس سے ان کے کفروشرک کے اعمال کی نفی نہیں ہوتی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص393

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ