السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایڈنبرا سے محمد سلیم دریافت کرتے ہیں کہ کیا محرم کےمہینے میں شادی کرنا’ نئے کپڑے پہننا ’خوشی کی کوئی محفل منعقد کرناجائز ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اس کی اس خصوصیات کے علاوہ رسول اکرمﷺ نے اس مہینے کی جو فضیلت بیان فرمائی ہے وہ اس کی دسویں تاریخ کے روزے کی ہے اور اس کے ساتھ۹ یا ۱۱ تاریخ کےروزے کا بھی ذکر ہے اور رسول اکرمﷺ رمضان کےروزے فرض ہونے سے پہلے یوم عاشورہ کا روزہ پابندی سے رکھتے تھے۔ محرم کی دسویں تاریخ کو رسول اکرمﷺ کے بعد اہم تاریخی واقعات ہوئے ہیں ان میں سیدنا حضرت حسین ابن علیؓ کی کربلا میں شہادت کا سانحہ عظیمہ بھی ہے لیکن چونکہ یہ واقعہ رسول اکرمﷺ کے سالہا سال بعد میں وقوع پذیر ہوا اس لئے اس کی مناسبت سے یا اس کی یاد میں کسی کام یار سم کوکوئی شرعی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ لیکن بدقسمتی سےمحرم یا یوم عاشورا کی اصل فضیلت جو رسول اللہﷺ سے ثابت ہے اس پر تو کوئی عمل نہیں کرتا لیکن بے شمار غلط رسومات اور توہم پرستیاں عوام میں ان دنوں کی مناسبت سے پھیلی ہوئی ہیں۔شیعہ تو خیر شیعہ ہیں لیکن نام نہاد اہل سنت کی بڑی تعداد بھی ان بدعات و رسومات کی پابندی کرتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں محرم کے مہینے میں شادی نکاح سے مکمل پرہیزکیا جاتاہے بلکہ بعض علاقوں میں تو یہ عجیب وغریب رسم ہے کہ دو عیدوں یعنی عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے درمیانی دنوں میں بھی شادی نکاح کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور بعض لوگ اسے دو عید کہہ کرمنحوس قرار دیتے ہیں ۔دراصل دین سے دوری اور جہالت کی وجہ سے مسلمان طرح طرح کی توہم پرستیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور قرآن و سنت کی صحیح راہ نمائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ انہیں دین و شریعت سمجھ کر ان پر عمل کررہےہیں۔
غرض محرم کے مہینے میں شادیاں نہ کرنا یا جو کرے اسے برا سمجھنے کی قرآن و حدیث اور چاروں اماموں او اہل علم سے کوئی سند یا ثبوت نہیں یہ ایک جاہلانہ اور بے اصل خیال ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ٹھیک ہے قرآن و حدیث سے تو ایسی بات کا کوئی ثبوت نہیں لیکن جس مہینے میں اتنا بڑا حادثہ ہوا اور خاندان نبوت کو رسوا کرنے کی کوشش کی گئی اور ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا اس مہینے میں خوشی کا جشن منانا یا شادی کرنا کون سی عقل مندی ہے۔ اگر جذباتی انداز سے مرثیہ خوانی کرکے اس دلیل کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو شاید کچھ لوگ اس کو مان لیں۔ لیکن اگر دلائل و براہین کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل وجوہ کی بنا پر اس میں کوئی وزن نہیں ہے۔
(۱)پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں سوگ منانے یا ماتم کرنے کے سلسلے میں بھی ہماری مکمل راہ نمائی کی گئی ہے ۔ لہٰذا اس کی حدود بھی ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متعین کرسکتےہیں۔ قرآن میں صرف ان خواتین کو چار مہینے دس دن سوگ کی اجازت دی گئی ہے جن کے خاوند فوت ہوجائیں۔ خود رسول اکرم ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ میت کا سوگ تین دن سے زیادہ منانے کی کسی کو اجازت نہیں سوائے اس عورت کےجس کا خاوند فوت ہوجائے۔ اب ان تعلیمات کے بعد اس امر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ صدیوں سے پہلے رونما ہونے والے واقعے کا سوگ آج مختلف طریقوں سے منایا جائے۔
(۲)اگر بڑی بڑی شخصیتوں کے انتقال اور شہادت کے واقعات پر سوگ کرنا ضروری ہوتا تو خود رسول اکرمﷺ حکم فرماتے۔ آپ کی حیات مبارکہ میں حضرت حمزہؓ بڑی بے دردی سے شہید کئے گئے ۔ ایک موقع پر ۷۰ قرآن کے عالم دھوکے سے شہید کردیئے گئے مگر رسول اللہ ﷺ نے سال کے بعد ان کی موت کے سوگ میں نہ جلوس نکالے نہ تعزیئے اور نہ ہی شادی نکاح پر اس مہینے میں کوئی پابندی لگائی اور نہ ہی بعد میں صحابہ کرامؓ نے اس چیز کو اختیار کیا۔
(۳)سروردوعالمﷺ کے انتقال کا واقعہ معمولی نہیں۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے موقع پر صحابہ کرام ؓ اور خاندان اہل بیت کی جو حالت ہوئی اس کی تفصیلات سے سیرت و تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں۔ بڑے بڑے صحابہ کرامؓ دکھ و غم کی تصویر بنے ہوئے تھے مگر اس کے باوجود ربیع الاول کے جس مہینے میں آپ کے بارے میں نہ سنی کچھ کہتے ہیں نہ شیعہ بلکہ اکثر لوگ اسی مہینے میں جس میں حضورﷺ کی وفات ہوئی حضورﷺ کی پیدائش کی خوشی میں جشن اور عید مناتے ہیں۔ تو کیا حضرت حسینؓ کا مقام حضورﷺ سے بھی زیادہ کہ محرم میں ہم ان کی شہادت کی وجہ سے نکاح اور خوشی کی تقریبات کی بھی ممانعت کردیں۔ لہٰذا یہ محض جاہلانہ رسم ہے دین میں اس کا کوئی اصل نہیں۔
اس طرح دو عیدو ں کے درمیان شادی نہ کرنے کا خیال بھی محض توہم پرستی ہے۔ اس کےخلاف مہم چلانی چاہئے تا کہ لوگ ان بے جا پابندیوں سے آزاد ہوسکیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب