السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمد افتخار صاحب مانچسٹر سے دریافت کرتے ہیں کیا چہلم کے دن نکاح خوانی جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چہلم کے دن نکاح خوانی کےبارے میں آپ نے جو دریافت فرمایا ہے اس کا ایک اجمالی جواب ہے اور ایک تفصیلی۔ اجمالی جواب تو یہ ہے کہ چہلم کےموقع پر نکاح خوانی جائز ہے اور قرآن وحدیث میں ایسا کوئی حکم یا اشارہ تک نہیں ملتا کہ میت کےانتقال کو چالیس دن پورے ہوں تو اس دن اس کی اولاد یا عزیز و اقارب کی شادی نکاح جائز نہیں۔ تفصیل اس اجمال کی درج ذیل ہے:
سب سے پہلے تو ہمیں اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ چہلم کی رسم جو آج کل بعض لوگوں میں رائج ہے اس کا شریعت میں کوئی اصل یا ثبوت ہے؟ رسول اللہﷺ کا فرمان صحابہ کرامؓ کا عمل یا ’’ چاروں اماموں ‘‘ میں سے کسی کا قول ہے جس سے چہلم کا جواز ملتا ہو؟ہرگز ایسی کوئی چیز نہیں ملے گی۔درحقیقت یہ ساری رسمیں جنہیں تیجا ساتواں دسواں یا چالیسواں کہاجاتا ہے اور جنہیں میت کا سوگ منانے یا اسے ایصال ثواب کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ ساری بعد کی رسمیں ہیں۔ سلف صالحین کےدور میں ایسی کوئی نہیں تھی اور اب بھی ان کا زیادہ زور پاکستان و ہندوستان میں ہی ہے دوسرے ملکوں میں تو لوگ شاید ان کے ناموں سےبھی واقف نہ ہوں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خوشی اور غمی کےاظہار کے جو طریقے اور مواقع بتائے ہیں ان سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے اور سوگ اس انداز سے منانا جس سے پیغمبر اسلام نے روکا ہو کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایصال ثواب کےلئے اپنی طرف سے دن کا تعین کرنا اور اس کی خاص شکل قائم کرنا بھی جائز نہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل دلائل آپ کےلئے قابل غور ہیں:
آنحضرت ﷺ کی حدیث ہے:
’’لا یحل لا مراة تو من بالله والیوم الاخر ان تعد علی میت فوق ثلاث لیال الا علی زوج اربعة اشهر و عشراً‘‘ (ترمذي مترجم ج ۱ ابواب الطلاق ماجاء فی عدة المتوفی عنها زوجها ص ۴۳۱)
’’یعنی کسی مومن کےلئے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے اس عورت کےجس کا خاوند فوت ہوگیا ہو وہ چار مہینے دس دن تک سوگ منائے گی۔‘‘ اس لئے سوگ کےلئے محفلیں منعقد کرنا یا جمع ہونا خلاف شریعت ہے۔ رہی بات ایصال ثواب کےلئے جمع ہونا تو اس کی مروجہ شکل بھی غلط ہے۔ مخصوص دن کیلئے احباب و رفقاء اور برادری کے لوگوں کو جمع کرکے قرآنی خوانی کرانا پھر سب کا مل کرکھانے کھانا شریعت کی روح ہی کےخلاف ہے۔ غرباء و مساکین یا مستحقین کو مال دینا یا کھانا کھلانا یقیناً باعث اجروثواب ہے لیکن اپنے لوگوں کا جمع ہوکر اہل میت کےہاں سے کھانا کھانا اور یہ رسمیں منعقد کرانا چاہئے میت کےوارث یتیم اور غریب ہی کیوں نہ ہوں بالکل غیر شرعی فعل ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
حنفی فقہ کی مشہور کتابوں میں بھی ان اعمال کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ فتاویٰ بزازیہ مستمل شرح منیۃ المصلی’درمختار اور شامی میں ان رسموں کو مکروہ اور بدعت قرار دیا گیا۔ علامہ شامی نے اس لئے انہیں ناجائز قرار دیا ہے کہ یہ کام اکثر دکھلاوے اور شہرت کےلئے کئے جاتے ہیں۔ اس لئے اس سے دور رہنا چاہئے اور پھر موجودہ دور میں تو یہ رسمیں بالکل شادی اور میلے کےانداز سے کی جاتی ہیں۔
شیخ عبدا لحق محدث دہلوی سفرالسعادت میں لکھتے ہیں :عادت نبویﷺ نبود کہ برائے میت درغیر وقت نماز جمع شوند و قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گورونہ غیر آں وایں مجموع بدعت است و مکروہ نعم تعزیت اہل میت و تسلیہ و صبر فرموون سنت و مستحب است اماایں اجتماع مخصوص روز سوم و ارتکاب تکلفات دیگر و صرف اموال بے وصیت از حق یتامی بدعت است و حرام۔
(ترجمہ)برصغیر کے نامور محدث شیخ عبدالحق دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ عہد نبویﷺ میں یہ عادت نہ تھی کہ نماز کےعلاوہ میت کےلئے جمع ہوتے ہوں اس کےلئے (مخصوص شکل سے ) قرآن وخوانی کرتے ہوئے ختم پڑھتے ہوں’نہ قبر کے علاوہ کسی اور جگہ ’یہ سب بدعت ہے۔ ہاں میت کے ورثاء سےتعزیت کرنا انہیں تسلی دینا اور انہیں صبر کی تلقین کرنا سنت اور مستحب ہے۔ مگر یہ مخصوص تیسرے دن کا اجتماع اور پھر ان میں بے جا تکلفات کرنا’میت کی وصیت کے بغیر یتیموں کےمال کو اس طرح خرچ کرنا ’نہ صرف بدعت بلکہ حرام ہے۔
تو جب یہ ثابت ہوگیا کہ چہلم وغیرہ کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے۔ یہ کچھ لوگوں نے محض کھانے پینے کے ذرائع بنائے ہوئے ہیں تو پھر اس موقع پر نکاح خوانی یا کسی دوسری تقریب کو کس طرح ناجائز کہاجاسکتا ہے۔ کسی چیز کوناجائز یا ثواب و اجر کا ذریعہ ثابت کرنے کےلئے کتاب و سنت اور عملی صحا بہ سے دلیل ضروری ہے۔
آخر میں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میت کےلئے چالیس دن کےبعد نکاح خوانی وغیرہ کا جواز عام ہے لیکن اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہوا ہے تو اس کا نکاح چالیس دن کے بعد بلکہ چار مہینے دس دن تک جائز نہیں ہے۔ چارمہینے دس دن کی عدت گزرنے کےبعد پھر وہ نکاح ثانی کرسکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب