السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
والتھم سٹو لندن سےمحمد رفیق لکھتے ہیں جہیز کی اہمیت کیا ہے اور اسلام نے اس کی کہاں تک اجازت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شادی کےوقت والدین کی طرف سے جب لڑکی کو خاوند کےساتھ رخصت کیا جاتا ہے تو والدین یا دوسرے عزیزواقارب کی جانب سے اسے کچھ اشیاء یا تحائف دیئے جاتے ہیں جو وہ ساتھ لے کر اپنے خاوند کےگھر جاتی ہے۔ والدین یا دوسرے رشتہ داروں کی جانب سے لڑکی کےلئے ان چیزوں کےدیئے جانے کا جہاں تک تعلق ہے تو بنیادی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ہمارے ہاں اس موقع پر جو کچھ دیا جاتا ہے اسے جہیز بھی کہاجاتا ہے۔
نبی کریمﷺ نےاپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہراؓ کو جب حضرت علیؓ کے ساتھ رخصت کیا تو انہیں کو گھر میں استعمال کی چند ضروری چیزیں دی تھیں جن میں کچھ کپڑے‘تکیہ ‘پیالہ‘چکی ‘مشکیزہ اور کچھ دوسرے برتن شامل تھے اور یہ چیزیں نے حضرت علیؓ کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی دی تھیں۔
اگر خاوند آسودہ حال ہے اور اس کی طرف سے کسی چیز کا مطالبہ بھی نہیں ہے تو والدین اگر بغیر جہیز کے بھی اپنی بیٹی کو رخصت کردیتے ہیں تو یہ بھی جائز ہے۔ لیکن بنیادی طورپر وہ اپنی حیثیت کےمطابق اپنی بیٹی کو سامان دے سکتے ہیں جس کی خاوند کے گھر اسے ضرورت بھی پڑتی ہے۔
جہاں تک برصغیر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاں جہیز کی مروجہ شکل کا تعلق ہے تو اس میں بے شمار منکرات شامل ہوگئی ہیں اور بعض حالات میں اسے ناجائز بھی قرار دیا جاسکتا ہے خاص طور پر جس انداز سے جہیز کے سامان کی نمائش کی جاتی ہے اور پھر اسے بڑائی اور تفاخر کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے اس سے بے شمار اخلاقی و معاشرتی برائیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جھوٹی شہرت کے لئے خاندانوں اور برادریوں کے درمیان ایک دوڑ شروع ہوجاتی ہے اور پھر لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے لئے مطالبے اور شرائط بھی آتی ہیں۔ حتی کہ سامان کی فہرست پیش کی جاتی ہے کہ یہ اشیاء اگر پوری کروگے تو شادی کریں گے بعض اوقات ان کی توقع کےمطابق جہیز نہ لانے کی وجہ سے لڑکی واپس بھی بھیج دی جاتی ہے۔
یہ ایک خالص ہندوانہ رسم ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اس لعنت کے خلاف جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں یہ صورت حال ہو وہاں توخوش حال لوگوں کو مناسب جہیز دے کر سادہ طریقے سے اپنی بیٹی کو رخصت کرنا چاہئے تا کہ یہ رسم جو غریب لوگوں کےلئے ایک مصیبت بن چکی ہے‘وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔
مروجہ شکل کا ایک دوسرا پہلو بھی قابل ذکر ہے جس کی وجہ سے جہیز منکرا ت میں شامل ہوچکا ہے وہ فضول خرچی ہے کہ لوگ بلاضروت محض ناموری کےلئے جہیز کی شکل میں اتے سامان دے دیتے ہیں کہ بعض اوقات وہ ساری عمر نے کا ر پڑا رہتا ہے اور اس کے استعمال کی نوبت بھی نہیں آتی۔
اسلام فضول خرچی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتاہے۔ لوگوں کے باہمی حقوق تو ادا نہیں کرتے‘ مستحقین اورمساکین کی مدد کےلئے مال خرچ نہیں کرتے لیکن خاندان اور برادری میں محض ناک اونچی کرنےکےلئے جہیز کی رسم کےلئے بے پناہ مال خرچ کرتے ہیں۔ یہ شکل بہرحال جائز نہیں ہے۔ سادہ طریقے سے بغیر نمائش کےخاوند کی ضرورت اور اپنی استطاعت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کچھ چیزیں شادی کے موقع پر بیٹی کو دی جاتی ہیں تو یہ جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب