سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) کیا وقت نکاح مہر کی ادائیگی لازم ہے؟

  • 14032
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 2251

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

والتھم سٹو لندن سے محمد اقبال و محمد رفیق صاحبان لکھتے ہیں

لفظ ’’ مہر ‘‘ کےمعنی اور وجہ تسمیہ کیا ہے؟

مہر کی ادائیگی کےبارےمیں دو مکاتب  فکر ہیں۔ اولاً یہ کہ وقت نکاح ادائیگی مہر لازمی قراردی گئی ہے وگرنہ تکمیل نکاح نہیں قرار پاتی ۔ دوم یہ کہ وقت طلاق ادائیگی مہر شرط طلاق ہے۔ صحیح صورت کیا ہے تفصیل سےلکھیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مہر کےلغوی معنی ہیں بدلہ اور عوض اور شرعی طورپر اس مال کو کہا جاتا ہے جس وہ وہ جائدہ اٹھا سکے اور خرچ بھی کرسکے۔ یہ معجل بھی ہوتا ہے اور مؤجل بھی۔ یا دوسرے الفاظ میں۔

اسلام میں وہ چیز جو خاوند نکاح کےسلسلے میں بیوی کو پیش کرتا ہے جس سے وہ جلد یا بدیر فائدہ حاصل کرتی ہے اسے مہر کہا جاتا ہے۔ مہر کے علاوہ اس کےلئے لفظ صداق استعمال ہوا ہے۔ بعض فقہاء نے اس کےلئے ۹ نام ذکر کئے ہیں۔ دراصل یہ وہ عطیہ ہے جو خاوند کی طرف سے بیوی کو دیا جاتا ہے اور یہ وہ ہدیہ ہے جسے وہ پیش کرتا ہےبعض نے اس کا شرعی معنی یہ کیا ہے کہ وہ مال جو خاوند کےلئے ادا کرنا ضروری ہے اس فائدے کےمقابلے میں جو وہ بیوی سے حاصل کرتا ہے۔ بعض نے اس فائدے کا معا وضہ قرار دیا ہے جو خاوند اٹھا تا ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ معاوضہ نہیں بلکہ ایک ہدیہ اور عطیہ ہے جو خاوند کےلئے ضروری ہے کہ اسے ادا کرے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔

﴿وَءاتُوا النِّساءَ صَدُقـٰتِهِنَّ نِحلَةً... ﴿٤﴾... سورةالنساء

 کہ اپنی عورتوں کو ان کے مہر عطیہ کے طور پر ادا کرو اس لئے یہ ہے تو عطیہ مگر اختیاری نہیں بلکہ واجب ہے اور بہتر اور افضل یہی ہے کہ خاوند بیوی سے پہلی ملاقات سے قبل اسے ادا کردے جیسا کہ حضرت فاطمہؓ کےنکاح کےوقت رسول اکرمﷺ نے حضرت علی ؓ کو نصیحت فرمائی تھی۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کیا مہر کی ادائیگی نکاح کی صحت کےلئےشرط ہے اور نکاح کے وقت اس کا ادا کرناضروری ہے ’اس مسئلے میں یوں تو فقہاء کی مختلف آراء ہیں لیکن قرآن و سنت کی روشنی میں جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہےکہ نکاح کے وقت اس کی ادائیگی شرط نہیں ہے۔

ارشاد ربانی ہے :

﴿لا جُناحَ عَلَيكُم إِن طَلَّقتُمُ النِّساءَ ما لَم تَمَسّوهُنَّ أَو تَفرِ‌ضوا لَهُنَّ فَر‌يضَةً...﴿٢٣٦﴾... سورةالبقرة

’’یعنی تم عورتوں کو طلاق دے سکتے ہو ایسی حالت میں بھی جب نہ تو تم نے انہیں ہاتھ لگایا اور نہ ہی مہر مقرر کیا۔‘‘

اس سے یہ واضح ہوتا  ہےکہ مہر مقرر کئے بغیر نکاح کےوقت اس کا نام لئے بغیر نکا ح ہوچکا تھا اسی لئے تو ایسی صورت میں بھی طلاق کا حق دیا ۔ظاہر ہے کہ نکاح ہوگا تب ہی طلاق ہوگی۔ ہاں بعد میں اسے مہر بہرحال دینا ہوگا۔ اگر مہر کی مقدار پر اتفاق نہ ہوسکے تو پھر خاندان کی یا اس طرح کی عورتوں کےجو مہر مقرر ہیں ان کی مثال سامنے رکھ کر مہر ادا کیاجائے گا۔

جہاں تک طلاق کےوقت مہر کی ادائیگی کا مسئلہ ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ نکاح کےفوراً بعد طلاق دے دی اور دونوں کے درمیان ازدواجی تعلق بھی قائم نہیں ہوا یعنی مباشرت نہیں کی تھی تو ایسی صورت میں عورت نصف مہر لینے کی حق دار ہوگی یعنی اگر مہر مؤجل تھا اور نقد ادا نہیں کیا گیا تھا تو اب طلاق کےموقع پر یہ شرط ہےکہ وہ نصف مہر ادا کرے اور اگر معجل تھا یعنی نکاح کے وقت ادا کردیا گیا تھا تو عورت صرف نصف مہر رکھنے کی مجاز ہوگی۔باقی نصف   واپس لوٹانا ہوگا۔

قرآن حکیم  میں اس کی تصریح اس آیت میں کردی گئی ہے۔

﴿وَإِن طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ وَقَد فَرَ‌ضتُم لَهُنَّ فَر‌يضَةً فَنِصفُ ما فَرَ‌ضتُم...﴿٢٣٧﴾... سورةالبقرة

’’یعنی اگر تم نے عورتوں کو طلاق دی اس سے پہلے کہ تم ان سے مباشرت کرو اور تم نے مہر مقرر کردیا تھا ایسی حالت میں جو تم نے مقرر کیا اس کا نصف ادا کرنا ہوگا‘‘ اور اگر ایسی صورت پیش آتی ہے کہ نکاح کے فوراً بعد طلاق کی نوبت آجاتی ہے نہ اس نے مباشرت کی اور نہ ہی مہر کی کوئی رقم مقرر ہوتی تھی ایسی صورت میں خاوند کو اپنی استطاعت کےمطابق کچھ مدد کرنا ہوگی ۔ اس کے علاوہ کسی چیز کا دینا  اس کےلئے بھی ضروری نہیں ہے۔

اس کی تصریح سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں کردی گئی ہے۔

’’اگر تم عورتوں کو ایسی حالت میں طلاق دو کہ نہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا تھا (یعنی مباشرت نہیں کی تھی) اور نہ ہی کوئی مہر مقرر ہواتھا ایسی صورت میں وسعت والے کو اپنی حالت کےمطابق اور تنگی والے کو اپنی حالت کےمطابق عورت کو خرچ دینا ہوگا اور یہ فائدہ اچھے انداز میں پہنچانا چاہئے۔‘‘ (البقرہ:۲۳۶)

اور اگر مباشرت کےبعد طلاق دیتا ہے تو ایسی صورت میں طلاق کےوقت پورا مہر ادا کرنا ضروری ہے اور اگر مہر مقرر نہیں ہوا تھا تو ایسی صورت میں اسے مہر مثل یعنی خاندان میں اس طرح کی عورتوں کی مثال سامنے رکھتے ہوئے مہر ادا کرنا ہوگا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ واقعہ بھی اس رائے کی تائید کرتا ہے کہ نکاح کے وقت مہر کی ادائیگی شرط نہیں ہے کہ ان کےپاس ایک سائل یہ سوال لےکرآیا کہ عورت کا خاوند فوت ہوگیا اور اس کا مہر ادا نہ ہواتھا اب اس کی وراثت میں سے اس کے مہر کا کیا حکم ہے؟ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ایک ماہ تک اس پر غور فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا:اس بارے میں اپنی رائے کےمطابق کچھ کہوں گا اگر صحیح ہو تو اللہ اور رسول کی جانب سے اور اگر خطا ہوئی تو وہ میری اپنی خطا ہوگی اور پھر فرمایا: اس عورت کے لئے مہر مثل ہوگا۔ یہ سن کر مجلس سے دو آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہاہم س بات کی شہادت دیتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ایک عورت کے بارے میں جس کا نام بروعہ بنت واشق تھایہی فیصلہ فرمایا تھا۔ اس پر حضرت ابن مسعودبہت خوش ہوئے۔

بہرحال مقصد یہ ہے کہ نکاح کےوقت مہر کی ادائیگی شرط نکاح نہیں بلکہ اس موقع پر مقرر بھی نہیں کیا تب بھی نکاح ہوجائے گا اور طلاق کی نوبت آئے تو پھر اس کےلئے مہر کا ادا کرنا شرط ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص383

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ