سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(176) رضاعت کی وجہ سے رشتہ نہیں ہوسکتا؟

  • 14026
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 1082

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برمنگھم سے محمد اکرم مرزا نے درج ذیل استفتاء بھیجا ہے۔

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارےمیں کہ مسمی غلام حیدر صاحب نے پہلی شادی کی ۔ ان کے ہاں لڑکی کلثوم پیدا ہوئی ۔ دوسری شادی کی تو ان کے ہاں لڑکا  طاہر پیدا ہوا جواب جوان ہے ۔ اب طاہر کی منگنی مسمات طلعت بی بی سے قرارپائی۔طلعت نے بوجہ مجبوری مسمات کلثوم کا دودھ پیا تھا۔ اب چند اشخاص کا کہنا ہے کہ طلعت  بی بی کا نکاح طاہر سے نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اب بھائی بہن بن چکے ہیں ۔ ازروئے قرآن وسنت کیا یہ نکاح جائز ہے؟

کچھ حضرات نے اس مسئلے کو دوحصوں میں بانٹ دیا ہے جو درج ذیل ہیں:

(الف)مسمات کلثوم نےا پنی خوشی سےلگاتار کئی دن کئی ہفتے یا کئی مہینے دودھ پلایا۔

(ب)کلثوم نے بوجہ مجبوری دودھ پلایا طلعت نے بکری کا دودھ بھی پیا اور کلثوم کا لگاتا ر نہیں بلکہ ٹکڑوں میں دودھ پلایا ۔ اس پر بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمائیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے سوال کی جو شکل بیان کی ہے اس کی مطابق طلعت اور طاہر کا  رشتہ بہن بھائی کا نہیں بلکہ ماموں بھانجی کا بنتا ہے۔ کیونکہ طلعت بی بی نے کلثوم کا دودھ پیا ہے اس طرح طلعت بی بی کلثوم کی رضاعی بیٹی ہوگی اور طاہر کلثوم کا بھائی ہے لہٰذا وہ طلعت کا ماموں ہوا کیونکہ اس نے طاہر کی بہن کلثوم کا دودھ پیا ہے۔

قرآن وحدیث کی رو سےماموں اور بھانجی کا رشتہ نہیں ہوسکتا چاہے بھانجی کا رشتہ  اس سے دودھ کی وجہ سے قائم ہوا ہے یا حسب ونسب کی وجہ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔ کیونکہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

’’یحرم من الرضاعة مایحرم من الولادة‘‘ (ابن ماجه للالبانی جلد اول ابواب النکاح باب یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب ص ۳۵۶ رقم الحدیث ۱۹۴۴)

’’کہ جو رشتے پیدائش یعنی نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔‘‘

حضرت علی ؓ سے جو روایت ہے اس میں آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ان الله  حرم من الرضاع ماحرم من النسب‘‘ (ترمذي مترجم ج۱ ابواب الرضاع باب ماجا ء یحرم  من الرضاع مایحرم من النسب ص ۴۱۰)

’’کہ اللہ نے نسب کی وجہ سے جو رشتے حرام ٹھہرائے ہیں وہ رضاعت (دودھ پلانے ) کی وجہ سے بھی حرام کردیئے ہیں۔‘‘

چونکہ ماموں اور بھانجی  کا رشتہ نہیں ہو سکتا اور صورت مذکورہ میں طاہر اور طلعت ماموں بھانجی بنتے ہیں لہٰذا ان کا نکاح نہیں ہوسکتا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ طلعت نےکلثوم  کا دودھ لگاتار نہیں پیا بلکہ وقفوں سےپیا یا کسی مجبوری کی وجہ سے کلثوم کا دودھ پلانا پڑا تو اصل مسئلہ میں اس تقسیم سے کوئی فرق نہیں  پڑتا ۔ دودھ پلانے کی اصل مدت دوسال ہے۔اس عرصے میں اگر ایک مرتبہ بھی طلعت نےکلثو م کا دودھ پی لیا ہے تو وہ طاہر کی رضاعی بھانجی بن جائے گی۔ قرآن نے جہاں دودھ پلانے کا ذکر کیا ہے۔ وہاں تھوڑے یا زیادہ وقفوں اور لگاتا ر کی تقسیم نہیں کی ۔اور فرمایا :

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَر‌ضَعنَكُم...﴿٢٣﴾... سورةالنساء

’’کہ تمہاری وہ مائیں بھی حرام ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا۔‘‘

ا  س میں مقدار یا وقفوں کا ذکر نہیں۔ بعض نے پانچ یا دس دفعہ پینے کا ذکر کیا ہے لیکن جمور علماء کے نزدیک جن میں امام مالکؒ ‘امام بوحنیفہؒ’ امام ثوری ؒاور امام احمد بن حنبل  شامل ہیں انہوں نے یہی کہا کہ ہے کہ قلیل و کثیر دونوں سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے اور قرآن کےدلائل بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔

اور اگر صورت مذکورہ میں طلعت نے کلثوم کا دودھ پانچ یا دس مرتبہ پیا ہے‘ چاہے اس نے وقفوں سے ہی کیوں نہ پیا ہو’پھر رضاعت کے ثبوت میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ اس لئے صورت مسئولہ میں طلعت اور طاہر کے اس رضاعی رشتے کی وجہ سے نکاح درست نہیں ہو گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص377

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ