السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیورپول سے عبدالقادر دریافت کرتےہیں کہ بعض لوگوں سے سنا ہے کہ ڈاکٹر اپنے قریبی رشتے سے شادی (کزن میرج ) سےمنع کرتے ہیں مثلاً چچا کی لڑکی یا ماموں کی لڑکی وغیرہ سے او ر اس کے بارے میں ڈاکٹر ی اصول سے کچھ نقصان بھی بتاتے ہیں۔ اس بارے میں قرآن وحدیث کاحکم چاہئے۔ اس مسئلےکو ذرا وضاحت کے ساتھ شائع کریں کیونکہ بہت سے لوگوں کے دماغ میں الجھن موجود ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلمانوں کے لئے راہ نمائی اور ہدایت کی اصل بنیاد قرآن و حدیث ہیں اور اس کے سامنے اصل اتھارٹی اللہ کا قانون ہے۔ دنیاوی طبی تحقیق کے ذریعے کسی قرآنی اصول کو ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ طب کی تحقیق میں نئی نئی انکشافات آئے دن ہوتے رہتے ہیں جن میں جدید طبی تحقیق پرانی تحقیق کو کالعدم قرار دے دیتی ہے اور جدید طب میں پہلے دور کی طبی تحقیق کو فرسودہ اور لایعنی قرار دیاجاچکا ہے اس لئے ایک مسلمان کےلئے اصل بنیاد قرآن وسنت کی تعلیمات ہیں۔
اب جب ہم زیر غور مسئلے کا جائزہ قرآن کی تعلیم کی روشنی میں لیتے ہیں توقرآن نے واضح طور پر ان رشتوں کو جائز حلال قراردیا ہے اور قریبی شادیوں کےبارے میں کسی ضرر یا نقصان کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔ اب قرآنی نص کے سامنے کسی وقتی طبی تحقیق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دیکھئے سورہ احزاب کی آیت ۵۰ جس میں نبی کریمﷺ کو مخا طب کرکے حلال رشتوں کا ذکر کیا گیاہے اور اس میں چچا کی بیٹیوں ماموں کی بیٹیوں پھوپھی کی بیٹیوں اور خالہ کی بیٹیوں کا خاص طور پر نام لیا گیا ہے ۔ اس کے بعد کیا کسی ڈاکٹر ی تحقیق کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟
اس کے علاوہ سورہ نساء کی آیت ۲۲‘۲۳‘۲۴ کا مطالعہ کیجئے ان آیات میں ان رشتوں کا مفصل ذکر ہے جن سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے اگر کسی دوسرے قریبی رشتے سے نکاح حرام یا نقصان دہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ جو علیم و خبیر ہے او ر اپنے بندوں کی فطری کمزوریوں کا واقف حال ہے وہ خود یہاں ان رشتوں کو بھی حرام کردیتا ۔ مگر ان ساری آیات کو پڑھنے کے بعد ایسی کوئی بات سامنے نہیں آتی ۔ اس لئے محض ایک طبی مفروضے کی بنا پر یقین کرلینا مسلمان کی شان کےشایان نہیں۔
اور پھر خو د طبی لحاظ سے بھی یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ دور حاضر میں بعض مسلم ڈاکٹروں نے جو اس کی تحقیق کی ہے اس میں اس خیال کو سرے سے باطل ثابت کیا ہے قریبی رشتہ داروں سے نکاح کرنے سے صحت یا نسل پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
لندن سے شائع ہونے والے عربی ہفت روزے المسلمون نے اپنی ۲۰ جون ۱۹۸۶ء کی اشاعت میں ڈاکٹر کبارتی کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ خیال مکمل طور پر باطل ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے نکاح کرنے میں کوئی ضرر یا نقصان ہے۔ ڈاکٹر کبارتی نے جدید علوم کی روشنی میں اس نظریئے کو غلط ثابت کیا ہے۔
اس سلسلے میں بعض لوگ ایک روایت کا بھی ذکر کرتے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار ایک دوسرے سے شادی نہ کریں۔ اس سےکمزور اور بیمار اولاد پیدا ہوتی ہے۔ اول تو اس حدیث کا احادیث کی کتب صحیحہ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ پھر یہ نص قرآنی کےخلاف ہے ۔ پھر امت کا عملی اور فکری اجماع چودہ سوسال سےمسلسل اس کی نفی کررہا ہے اور پھر محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب