سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(172) شادی سے قبل منگیتر کو دیکھنا جائز ہے؟

  • 14022
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 2020

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لندن سے محمد علی لکھتے ہیں کہ کیا شادی سے پہلے منگیتر یا جس لڑکی سے شادی کرناچاہتا ہو اسے دیکھنا اور اس سے ملاقات کرناجائز ہے اور کیا اس کےفوٹو منگوا کر دیکھے جاسکتے ہیں؟ شریعت کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی نکاح اور شادی سے پہلے کوئی عورت چاہے کسی کی منگیتر ہویا اس سے شادی کا فیصلہ ہوچکا ہو وہ اجنبی اور غیر محرم ہے اس سے خلوت کرنا یا ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اس عورت کےوالدین یا عزیزوں کی موجودگی میں اسے دیکھنا جائز ہے جس سے شادی کرنے کا خیال ہو۔

حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب کسی عورت سےتمہاری منگنی ہوجائے تو اسے نکاح کی غرض سے دیکھنا جائز ہے۔ ایک صحابی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ انہوں نے ایک عورت سے شادی کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ پہلے اسے دیکھ لیں۔ یہ چیز نکاح اور شادی کی کامیابی کےلئے معاون و مفید ہے۔

ان احادیث سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ نکاح یا شادی کی غرض سےکسی  عورت کو دیکھنے کی اجازت ہے یعنی ایسی عورت جس سے شادی کےسلسلے میں بات چل رہی ہے اور یہی مسئلہ دوسری طرف کا بھی ہے یعنی عورت کےلئے شادی کی غرض سے مرد کو ان حدود کے اندر دیکھنا جائز ہے۔

لیکن یہاں ایک بات کا ذکر بہرحال ضروری ہے کہ اس غرض کے لئے مختلف عورتوں کو دیکھنا پسند کرنا یا ملاقاتیں کرنا کوئی مشغلہ بھی نہیں کہ پسندو ناپسند کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا جائے بلکہ عورت یا مرد کا دیکھنا یہ تو بعد کا مرحلہ ہے شادی کےلئے اس سے پہلے بھی کچھ مراحل ہیں۔ دیکھنے کا تعلق تو ظاہر ی شکل و صورت سے ہے جب کہ اسلام میں ظاہری شکل وصورت سے زیادہ سیرت و کردار و اخلاق وعادات کی اہمیت ہے۔ اسی طرح تعلیم خاندانی تعلقات و روابط اور دوسرے کئی عوامل بھی شامل ہیں۔ اگر والدین کےباہمی رابطے سے پہلے سارے مراحل طے ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد پھر عورت  و مرد کو ایک دوسرے کو دیکھنے یا ملنے کی بھی اجازت ہے اور پھر علیحدگی یا خلوت میں ملنے یا ملاقات کی اجازت نہیں۔

جہاں تک فوٹو کا مسئلہ ہے تو جیسا کہ میں نے پہلے تحریر کیا ہے کہ شکل و صورت کا قبول ہونا یہ آخری مرحلہ ہے۔ جب باقی معاملات میں اتفا ق ہوجائے اور صورت کے قبول ہونے کی کمی باقی ہے تو ایسے حالات میں کوشش تو یہی کرنی چاہئے کہ پھر انہیں ایک دوسرے کو دیکھنے یا ملاقات کرنے کا مواقع فراہم کیا جائے اور اگر یہ ناممکن ہویا اس میں شدید  مجبوریا ں حائل ہوں تو پھر فوٹو کے ذریعہ بھی یہ ضرورت پوری کی جاسکتی ہے لیکن اس میں احتیاط بہرحال ضروری ہے کیونکہ عام حالات میں فوٹو بجائے خود جائز نہیں اور پھر اس میں کئی قسم کے مفاسد اور خرابیاں بھی آسکتی ہے اور اگر رشتے کی بات کامیاب نہ ہو تو بعض دفعہ یہ فوٹو فساد کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص372

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ