السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حافظ داؤد چیپل اسٹریٹ آکسفور ڈ سے پوچھتے ہیں۔
(الف)ایک مولوی صاحب نکاح پڑھاتے ہیں تو کلمے نہیں پڑھاتے۔ کیا کلمے پڑھائے بغیر نکاح ہوجائے گا اور مولوی صاحب صرف لڑکے کا نکاح پڑھاتے ہیں’لڑکی یعنی دلہن کو کچھ نہیں پڑھاتے فقط وکیل سے کہتے ہیں تم دلہن سے اجازت لے آؤ تو وکیل او ر دوگواہ دلہن سے اجازت لے آتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(الف)جہاں تک نکاح میں کلمے پڑھانے کا تعلق ہے تو احادیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اکرمﷺ نے نکاح کے موقع پر دولہا یا دلہن کو کلمے پڑھائے ہوں یا ان سے کلمے سنے ہوں نہ ہی چاروں اماموں اور محدثین سے ایسی کوئی بات منقول ہے۔ یہ محض ایک رسم ہے جو بعض علاقوں میں رائج ہے اور یوں بھی اس وقت ایک دوبار کلمہ پڑھا دینا اس کاکوئی مقصد معلوم نہیں ہوتا ۔ جس نے جوانی تک کلمہ یاد نہیں کیا وہ نکاح کےموقع پر مولوی صاحب کے ایک دو بار پڑھانے سے کیسے یاد کرلے گا ۔ باقی رہی وکیل کی بات تو اگر لڑکی دو گواہوں کے سامنے اپنے ولی یا وکیل کو نکاح کی اجازت دےدیتی ہے تو وکیل س کی طرف سے ایجاب قبول کرسکتا ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’الثیب احق بنفسها من ولیها والبکر یستاذنها ابوها فی نفسها واذنها صمتها‘‘ (مسلم مترجم ج ۳ کتاب النکاح باب استئذان الثیب فی النکاح ص ۲۸)
’’ بیوہ ولی کے مقابلے میں اپنے نفس کی زیادہ مالک ہے اور کنواری سے اس کا والد اجازت حاصل کرے اور اس کی خاموشی اجازت سمجھی جائے گی۔‘‘
اس اجازت کے بعد والد یا ولی اس کی طرف سے ایجاب و قبول کرسکتا ہے لیکن اگر لڑکی سے دو گواہوں کے سامنے براہ راست ایجاب و قبول کرالیا جائے تو یہ بھی جائز ہے بلکہ بعض حالات میں یہ زیادہ بہتر اور مناسب ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب