السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مغربی جرمنی سے کسی نے پوچھا ہے
اسلام نے کس قسم کی حکومت کا حکم دیا ہے؟ اسلام ڈنڈے سے پھیلا ہے’تلوار سے یا اخلاق سے؟ جس قوم کا مقدر فوجی حکومت ہووہ ترقی کرسکتی ہے۔ میں بھوکا ہوں میرے بچے بھوکے ہیں بھوک سے تنگ آکر چوری کروں تو میرے ہاتھ کانٹے جائز ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں نظام حکومت کی بنیادیں رسول اکرم ﷺ اور خلفاء راشدین ؓ رکھ کر گئے ہیں۔
(۱)جس میں شخص آزادی اور عدل و مساوات کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے اور ظلم و ناانصافی کی بیخ کنی کی گئی ہے ۔ ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر نافذ کرنا اسلامی حکومت کا کام ہے لیکن مغربی طرز جمہوریت کو مسائل کا حل سمجھنا یا طرز حکومت قرار دینا ہمارے نزدیک بالکل غلط ہے بلکہ اسلام کےمعاشی و معاشرتی نظام کو زندگی کےہر شعبے میں لاگو کرنے کے بعد اس ملک کےمناسب حال کوئی انتظامی ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں شخصی آزادی برقرار رہے اور عدل و مساوات کے اسلامی اصولوں کو فوقیت دی جائے۔
(۲)اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا اس کی گواہی تو اب دشمن بھی دے چکے ہیں۔ جس دین کے لانے والے نے اپنی دعوت کا آغاز تین یا چار آدمیوں سے کیا ہو پھر جنہیں ان کے آبائی شہر سے نکال دیا گیا ہو جو باقی رہ گئے وہ ایک عرصے تک ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے اور ایک عرصے تک خفیہ طور پر دعوت کا کام جاری رکھا اور پیغمبر اسلامﷺ اپنے مظلوم و بےکس ساتھیوں کو لے کر بے سروسامانی کےعالم میں ایک دوسرے شہر کا رخ کرتے ہیں‘ ان کے بارے میں کہنا کہ اسلام تلوار سے پھیلا کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ اسی طرح میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ بھی اس بات کےشواہد ہیں کہ اسلام نے تلوار کی بجائے اخلاق و صلح کو ترجیح دی ہے۔کسی نے خوب کہا ؎
غلط کہ اس نے تیغ کے سہارے کار ویں کیا
غلط کہ اس نے مادی وسیلوں پر یقین کیا
حدیبیہ کی صلح سے عیاں ہے اس کی نرم کو
ہوا ہے کوئی او ر نہ ہوسکے گا ایسا صلح جو
(۳)انتظامیہ ایمان دار ہو اور عدل و انصاف کو بالادستی حاصل ہو’اسلام اپنی ذات سےلے کر پور ے ملک میں نافذ کرنے کی صلاحیت و جرات ہو تو پھر ملک ترقی کرسکتا ہے۔ حکمران چاہے فوجی ہو یا سیاست داں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(۴)جوحکومت بھوکے کو کھانا نہ کھلاسکے اور لوٹ کھسوٹ اور استحصال کے دروازے بند نہ کرسکے وہ کسی بھوکے کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتی ۔ کیونکہ اسلام جزوی نہیں بلکہ مکمل نظام حیات ہے جس میں عبادات ’اقتصادیات اور اخلاقیات سب شامل ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب