السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمد دین لیڈز سے تحریرکرتے ہیں۔ میرے ایک دوست کا کہنا یہ ہے کہ بیت اللہ میں جو حجر اسود نصب ہے وہ جنت سے نازل ہوا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے او ر اس کی دلیل بیان کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حجر اسود اس پتھر کو کہتے ہیں جو بیت اللہ شریف کے اس کونے میں نصب ہے جو اس کے دروازے کے قریب ہے۔ اس کے سامنے سے طواف شروع ہوتا ہے اور اسی جگہ آکر ختم ہوتا ہے۔ اسے چو م کر یا ہاتھ لگاکر طواف کرنا مسنون ہے۔اس پتھر کے بارے میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کا یہ مشہور فرمان ہے۔
’’انی اعلم بانک حجر لا تضر ولا تنفع ولو لا انی رایت رسول اللهﷺیقبلک ما قبلتک۔‘‘(فتح الباري ج ۴ کتاب الحج باب ماذکر فی الحج الاسود رقم الحدیث ۱۵۹۷)
’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ‘ نہ نقصان پہنچاسکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے۔ اگر میں نے رسول اللہﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ انہوں نے تجھے بوسہ دیا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘
جہاں تک اس کےجنت سےنازل ہونے کا تعلق ہے تو یہ بھی حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا:
’’نزل الحجر الاسود من الجنة وهو اشد باضنا من اللبن فسودته خطایا بنی آدم۔‘‘ (ترمذي مترجم ج ۱ ابواب الحج باب ماجاء فی فصل حجر الاسود ص ۳۱۹)
’’حجر اسود جب جنت سے دنیا میں ہوا تو وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا پھر اولاد آدم کےگناہوں نے اسے سیاہ کردیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے۔ اس حدیث سے بہرحال یہ ثابت ہوتا ہے کہ حجر اسود جنت سے لاکر بیت اللہ میں نصب کیا گیا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب