السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برائے مہربانی زکوٰۃ سے متعلق مندرجہ ذیل فقہی اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے اصل صورت حال صاف فرما کر الجھن دور فرمایئے۔
(الف)عورتوں کے استعمال کے زیور کے بارے میں حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہے جبکہ ایک دوسرا گروہ جس میں غالباً شافعی فقہ کے لوگ شامل ہیں اس طرف گیا ہے کہ عورتوں کے استعمالی زیور پر حضرت عبداللہ بن عمرؓ زکوٰۃ نہیں لگاتے اور یہی رائے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی بھی ہے۔ موطا امام مالک ص۱۰۶ میں ہے۔ کہ حضرت ابن عمرؓ اپنی لڑکیوں کو زیور پہناتے تھے اور زکوٰۃ نہیں دیتے تھے۔ یہ بات تو تمام فقہ کےلوگ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓکا صحابہ کرام میں بہت بلند مقام ہے چنانچہ اگر حدیث کی کتب سے ان کی بیان کردہ احادیث کو حذف کردیا جائے تو آدھے صفحے خالی رہ جائیں۔ امام مالک ؒ کی مالکی فقہ کا تو تمام تر دارومدار ہی حضر ت ابن عمرؓ کے فتاویٰ پر ہے۔
(ب)نبی کریمﷺ کی ایک حدیث ہے: ’’آپ ﷺ نے ایک عورت کو سونے کےکنگن پہنے دیکھ کر پوچھا‘ کیا تم اس پر زکوٰۃ دیتی ہو؟ جواب نفی میں پا کر ارشاد فرمایا کیا ان کی جگہ قیامت میں آگ کےکنگن پہننا پسند کروگی؟‘‘
اس ضمن میں ایک دو اور سوال بھی واضح فرمائیے کہ کیا زکوٰۃ واجب ہے یا فرض ؟ آیا فرائض اور وجوب ایک چیز کےدونام ہیں یا کوئی فرق ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ کیا سگے بھائی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے اور کیا اس پر بھی بیوی کےخاوند کو زکوٰۃ دینے کی طرح قرابت کا بھی ثواب ہوگا؟
میں یہ بات و ضاحت سے عرض کردوں کہ میرا مدعا ہرگز یہ نہیں کہ حضرت ابن عمرؓ کی آڑ لے کرزکوٰۃ کے سلسلے میں کوئی ناجائز فائدہ اٹھاؤں بلکہ مقصد صرف صحیح مسئلے کی واقفیت ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کے سوالنامے کو تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ پہلا یہ کہ کیا زیور مستعملہ میں زکوٰۃ واجب ہے اور اگر واجب ہے تو پھر حضرت عائشہؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اختلاف کی حیثیت کیا ہے؟
دوسرا یہ کہ فرض اور واجب کی اصطلاح میں کوئی فرق ہے؟
تیسرا یہ کہ کیا حقیقی بھائی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟ جیساکہ حدیث میں بیوی کے خاوند کو صدقہ دینے کا ذکر آیا ہے؟
۱۔جہاں تک مستعملہ زیور کے وجوب کا تعلق ہے تو کتا ب و سنت کے ظاہر ی دلائل کی روشنی میں یہی بات راجح ہے کہ مستعملہ زیور میں زکوٰۃ واجب ہے چاہے زیور سونے کےہوں یا چاندی کے۔ اس سلسلے میں آپ نے جو کنگن والی حدیث بیان کی ہے اس کے علاوہ درج ذیل دو احادیث کا ذکر بھی مفید رہے گا۔
۲۔حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے : ’’وہ سونے کےزیور پہنتی تھیں پس انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا کہ کنزہے؟ آپﷺ نے فرمایا اگر تم نے اس کی زکوٰۃ دی ہے تو یہ کنز نہیں۔‘‘ (دار قطنی’ابوداؤد)
۳۔حضر ت عبداللہ بن شداد کی روایت ہے : ’’ہم حضرت عائشہؓ کے پاس گئے تو انہوں نے ذکر کیا کہ ایک بار حضورﷺ نے میرے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھی تو دریافت کیا کہ عائشہؓ یہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا اللہ کے رسول یہ میں نے زینت کےلئے انگوٹھی پہنی ہوئی ہے۔ تو آپ نے فرمایا اس کی زکوٰۃ تم نے ادا کی ہے؟ میں نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا تیرے لئے جہنم سے یہ کافی ہے۔‘‘
اس طرح کی اور بھی حدیث روایت کی گئی ہیں جن سے اس مسلک کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ مستعملہ زیور میں زکوٰۃ فرض ہے ۔ جن لوگوں کے نزدیک مستعملہ زیور میں زکوٰۃ فرض یا ضروری نہیں ہے انہوں نے جہاں بعض اقوال سے استدلال کیا ہے وہاں حضرت جابر کی اس مرفوع حدیث کا بھی سہارا لیا ہے کہ لیس فی الحلی زکوٰۃ حالانکہ یہ حدیث نہ صرف ضعیف بلکہ موضوع اور بے اصل ہے ۔ اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ یا حضرت عائشہؓ کے اقوال کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ مرفوع صحیح روایت ملنے کے بعد کسی صحابی یا امام کے آثار و اقوال قابل حجت نہیں رہتے۔ رسول اللہ کا صحیح فرمان جب ہمارے سامنے آجائے تو پھر کسی بھی شخصیت کا قول چھوڑا جاسکتا ہے۔رہی یہ بات کہ کیا ان کے اقوال غلط ہیں تو اجتہاد درست بھی ہوسکتا ہے او رغلط بھی لیکن مجتہد کو ہرحال میں اس کا اجر ملے گا۔ اس لئے صحابہ کرام اور ائمہ دین کے اجتہادات کا صحیح حدیث آنے کے بعد ہمارے لئے اپنانا ضروری نہیں لیکن ان کو اس کاوش کا اجر ضرور ملے گا۔
اس لئے یہ سوچنا کہ اس مسئلے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت عائشہؓ یا امام مالکؒ اور امام شافعی ؒ کے اقوال کو کس طرح چھوڑا جاسکتا ہےحدیث کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ ہاں اس مسئلے میں بعض علماء نے ان احادیث پر بھی کلام کیا ہے جن سے زیوروں کی زکوٰۃ کا وجود ثابت ہوتا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیثیں بھی ضعف سے خالی نہیں ہیں۔ ان احادیث کی اسناد پر بحث سے قطع نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام احادیث پر غور کرنے کےبعد بہرحال قوی رائے یہی ہے کہ زیور مستعملہ پر زکوٰۃ واجب ہے اور اگر فریق مخالف کے دلائل کو اہمیت دی جائے تب بھی احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ زیوروں کو زکوٰۃ ادا کی جائے۔
۲۔جہاں تک فرض اور واجب کےدرمیان فرق کا مسئلہ ہے تو اس میں بھی اختلاف ہے احناف کے نزدیک فرض اور واجب میں کچھ فرق ہے اور وہ واجب کو فرض سےکچھ کم درجہ دیتے ہیں جبکہ دوسرے ائمہ کے نزدیک فرض اور واجب ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔محض لفظی فرق ہے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ احادیث میں فرض یا واجب کی جو اصطلاح استعمال ہوئی ہے اس سے دوسری رائے کو تقویت ملتی ہے۔ واجب کالفظ فرض ہی کےمعنی میں استعمال کیا گیا ہے اور ان دونوں میں فرق کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے ۔ اس لئے ہمارے نزدیک ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
۳۔اقرباء کو صدقہ یا زکوٰۃ دینے کے بارے میں تفصیلی بحث میں پڑنے کی بجائے ہم اختصار سے یہ ذکر کرتےہیں کہ جس قریبی کا نان ونفقہ جس آدمی پر بھی واجب ہوگا’اس کوزکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ۔ا س لئے اس بات پر اجماع ہے کہ خاوند بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا ۔ اسی طرح اس بات پر بھی اجماع ہے کہ والد لڑکے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا ۔ جہاں تک عورت کا اپنے خاوند کو زکوٰۃ دینے کا تعلق ہے تو اس بارےمیں اختلاف ہے بعض لوگوں نے فرق کیا ہے کہ نفلی صدقہ عورت خاوند کو دے سکتی ہے لیکن زکوٰۃ نہیں دے سکتی ۔ جبکہ حضرت زینب کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ سے جب انہوں نے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں تم خاوند کو صدقہ دے تو تمہیں دو اجر ملیں گے ایک قرابت کا ایک صدقے کا ۔ لیکن اس حدیث سے زکوٰۃ دینے کا ثبوت نہیں ملتا ۔ زیادہ سے زیادہ نفلی صدقے کا جواز ملتا ہے۔ جہاں تک حقیقی بھائی کو زکوٰۃ دینے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے جب بھائی یا اس کی اولاد کے اخراجات پورےکرنا دوسرے بھائی کی ذمہ داری نہیں ہےجس طرح کہ اس کے اپنے بیوی بچوں کی اس پر ذمہ داری ہے تو ایسی صورت میں اگر بھائی مستحق ہے اور زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے کسی ایک دومیں وہ آتا ہے تو اسے زکوٰۃ دینے میں کوئی شرعی امر مانع نظر نہیں آتا ۔ خاص طور پر اگر حضرت زینب ؓ کی حدیث سے استدلال کیا جائے کہ انہوں نے زکوٰۃ کےبارے میں ہی حضورﷺ سے دریافت کیا تھا تو پھر حقیقی بھائی کو زکوٰۃ دینے سے بھی دو اجر حاصل ہوسکتے ہیں ایک قرابت کا ایک صدقے کا۔
بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ مستعملہ زیور جو عورتیں ہمیشہ پہنتی ہیں یا کبھی کبھی اس میں زکوٰۃ دینی ہوگی س کےلئے شرط یہ نہیں کہ عورت اس زیور کو استعمال کتنا عرصہ کرتی ہے بلکہ شرط یہ ہے کہ وہ سونا چاندی نصاب کو پہنچتا ہے یا نہیں۔ اگر نصاب سے کم ہےتو زکوٰۃ نہ ہوگی۔ جب نصاب پورا ہے تو زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب