السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گلاسکو سے ایک بھائی تحریر کرتے ہیں : میں ایک عرصے سے بیمار ہوں۔اس دوران مجھے بیماری کا الاؤنس ملتا ہے جو تقریباً ۱۰۴ پونڈ ہے اور ۶ بچوں کا فیملی الاؤنس بھی جو ۴۲ پونڈ ہے اس طرح مجھے ہفتے کےکل ۱۴۶ پونڈ ملتے ہیں ۲۰ پونڈ بیوی سے لے لیتا ہوں اور باقی سارے اسے دےدیتا ہوں او ر اس نے اب خاصی رقم بینک میں جمع کرائی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ میری بیوی کے پاس ۵۰ تولے سونا بھی ہے مگر اس رقم اور سونے کی وہ زکوٰۃ نہیں دے رہی اور انہ ہی زکوٰۃ کی ادائیگی کےلئے رقم میرے حوالے کرتی ہے او روہ خود کام بھی نہیں کرتی۔ اس صورت حال میں میرے لئے کیا حکم ہے؟ اور قرآن و حدیث کی روشنی میں زکوٰۃ نہ دینے کا گناہ مجھ پر بھی ہے؟ اور کیا میں بیوی سے اس رقم کا مطالبہ کرسکتا ہوں تا کہ زکوٰۃ ادا کی جاسکے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے زکوٰۃ کے بارے میں جو مسئلہ دریافت کیا ہے اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔
(۱)زکوٰۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں جو بنیادی شرائط ہیں ان میں دوشرطوں کا پایا جانا نہایت ضروری ہے ۔ پہلی یہ کہ جس مال پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے وہ آپ کی ملکیت میں ہو اور اسے خرچ کرنے کا آپ کو پورا اختیار بھی حاصل ہو اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس مال پر نصاب زکوٰۃ کو پہنچتے وقت پورا سال گزر چکا ہو۔ آپ نے جو صورت تحریر کی ہے اس کےمطابق حکومت کی طرف سے فیملی الاؤنس آپ کو ملتا ہے اس لحاظ سے وہ آپ کا مال ہے اور آپ کی ملکیت میں ہے لہٰذا اس کی زکوٰۃ دینا بھی آپ کی ذمہ داری ہے اور آپ کا یہ فرض ہے کہ بیوی کو جو مال آپ خود دیں وہ زکوٰٰۃ کی رقم نکال کردیں تا کہ آپ کو یہ اطمینان ہوجائے کہ زکوٰۃ ادا ہوگئی کیونکہ جیسا کہ آپ نے تحریر کیا ہے وہ تو زکوٰۃ ادا ہی نہیں کرتی۔
(۲)اب جو رقم اس سے پہلے آپ بیوی کو خود دے چکے ہیں تو وہ آپ کے اختیار سے باہر ہوگئی ہے اور قانونی طور پر اس سے نہ وہ رقم واپس لے سکتے ہیں اور نہ ہی اسے زبردستی زکوٰۃ دینے پر مجبور کر سکتے ہیں اس لئے آپ پر کوئی گناہ نہیں لیکن آئندہ کے لئے آپ کو احتیاط کرنا ہوگی اگر آپ اپنی مرضی سے اسے رقم دے دیتے ہیں جس کی وہ زکوٰہ ادانہیں کرتی تو پھر آپ بھی قصوروار ہوں گے۔
(۳)تیسری بات جس کی یہاں وضاحت ضروری ہے کہ اسلام میں بچوں کی کفالت اور بیوی کےنان ونفقہ کا ذمہ دار خاوند ہے اس لئے اگر وہ رقم جو بیوی کو دیتے ہیں اس سے سوہ اپنے اور بچوں کے اخراجات پورے کرتی ہے تو پھر اس رقم کے بارےمیں اس کےلئے آپ کی کسی اجازت کی بھی ضرورت نہیں اور وہ ضرورت کےمطابق اس میں تصرف کرسکتی ہے۔
حدیث میں ہے :
’’عن عائشة ان هندا قالت یا رسول الله ﷺ ان ابا سفیان رجل شحیح ولیس یعطینی مایکفیني وولدی الا مااخذت منه وهو لا یعلم فقال خذي ما یکفیک وولدک بالمعروف۔‘‘(فتح الباري ج ۱۰کتاب التفقات باب اذا لم ینفق الرجل رقم الحدیث ۵۳۶۴)
’’حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت کےمطابق ابوسفیانؓ کی بیوی حضرت ہندہؓ نے رسول اکرمﷺ سے کہا کہ ابوسفیان مال نہیں خرچ کرتے یعنی کچھ بخل سےکام لیتے ہیں اور میری اور میری اولاد کی ضرورت بھی پوری نہیں کرتے توکیا ایسی صورت میں اس کے مال سے میں اتنا اس کےعلم کے بغیر لے سکتی ہوں جس سےمیری اور میرے بچوں کی ضرورت پوری ہوجائے۔ تو آپ نے فرمایا ہاں تم اچھے طریقےسے اس طرح کےمال میں سے لے سکتی ہو۔‘‘
اب اس طرح کی صورت حال ہے پھر تو بیوی کا حق بنتا ہے اور ایسی حالت میں اس کےلئے خاوند کی اجازت بھی ضروری نہیں ہے اور اگر صورت اس سے مختلف ہے تو پھر ہم نے شروع میں اس کی وضاحت کردی ہے۔
بہرحال اصل مسئلہ آپ کے اختیار اور ملکیت کا ہے اور اگر اس مال پر آپ کا کوئی اختیار ہی نہیں بلکہ وہ آپ کی اطلاع اور اجازت کےبغیر اسے وصول کرسکتی ہے اور قانونی طورپر اس کا حق بھی بنتا ہے تو اس صورت میں اگر مال نصاب کو پہنچ جاتا ہے اور وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتی تو آپ پر کوئی وبال نہیں ہوگا‘ بلکہ سارا گناہ اس پر ہوگا اور قیامت کے دن اسی سے باز پرس ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب