السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری عمر ٢٤ اور ٢٥ سال ہے۔ہم ایک ساتھ پڑھتے ہیں،اور ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں۔لیکن اس وقت ہم ایسے حالات میں نہیں ہیں کہ ہمارے گھر والے ہماری شادی کروادیں ۔ہم روز بات بھی کرتے ہیں اور اکثر ملتے رہتے ہیں،جو کہ جائز نہیں کیونکہ ہم محرم نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ گھر والوں کو بتائے بغیر نکاح کرلیںاور صحیح وقت آنے پر گھر والوں کو بتا دیں۔دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مستقبل میں گھر والے راضی نہ ہوں تو کیا ہم طلاق یا خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کا ایک دوسرے سے بات کرنا اور ملنا جلنا بالکل حرام اور ناجائز ہے ،کیونکہ کسی بھی مرد کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ملاقات کرے۔یہ بہت بڑے فتنے اور گناہ کا باعث ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد تو اپنی مرضی سے شادی کر سکتا ہے لیکن کوئی بھی عورت اپنے ولی(والدوغیرہ)کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی ہے۔اگر کوئی ایسا کرتی ہے تو اس کا نکاح باطل ہے۔عورت بذات خود نہ تو اپنا نکاح کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی عورت کا ،کیونکہ شرعاً عورت نہ اپنی ولی بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے ۔اور ولی کے بغیر نکاح واقع ہی نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ‘‘ (جامع ترمذی أبواب النکاح باب ما جاء لا نکاح إلا بولی ح ۱۱۰۱)ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔ دوسری جگہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ‘‘ (سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی ح ۲۰۸۳)جو عورت بھی اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرواتی ہے تو اسکا نکاح باطل ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ۔ یہ حدیث مبارکہ سنن ترمذی (ابواب النکاح،بَابُ مَا جَاءَ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ فَزَوِّجُوهُ،نمبر ،امام ۱۰۸۵) میں موجود ہے ،امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو حسن لغیرہ کہا ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’ إذا أتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض‘‘"جب تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو تم اس كے ساتھ نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد برپا ہو گا" لہذا آپ کو چاہئے کہ آپ ایسا نکاح کرنے سے قطعی طور پر اجتناب کریں کیونکہ ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ہے۔اور جب یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا تو پھر اس کے بعد طلاق اور خلع کا سوال ہی باقی نہیں رہتا ہے۔اللہ تعالی آپ کو صراط مستقیم پر چلائے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |