السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لندن سے جمال بنت رافع لکھتی ہیں: ’’صراط مستقیم‘‘ جلد ۷ شمارہ ۱۰ مطابق رجب ۱۴۰۴ھ اور شمارہ ۱۱ میں فضائل و مسائل کی دونوں قسطیں انتہائی مفید اور کار آمد ہیں۔دوسری قسط میں ۱۳۔۳ سونا چاندی نقدی کا حساب میں برائے مہربانی مندرجہ ذیل کی تشریح فرمادیں مشکورہوں گی۔ مثلاً چاندی کا نصاب ساڑھے باوب تولے ہے۔ اگر کسی کے پاس ساتھ تولے چاندی ہو تو کیا صرف دس تولے پر زکوٰۃ دے او ر۵۰ تولے جو نصاب سے کم ہے اس پر نہ دے یا پورے ساٹھ تولے چاندی پر زکوٰۃ ادا کرے۔ اسی طرح ساڑھے سات تولے سے کچھ تولے سونا زائد ہو تو کیا زائد کی زکوٰۃ نکالے یا پورے سونے کی؟ اور اگر نقدی ۳ ہزار سے کچھ زائد ہو تو کیا صرف زائد پر زکوٰۃ نکالے یا کل پر؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سونا ‘چاندی‘ نقدی اور زیور سب پر چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکوٰۃ فرض ہے اور یہ اس وقت جب یہ ساری اشیاء نصاب کو پہنچ جائیں۔ آپ نے جو شکل لکھی ہے اس کےمطابق اگر وزن ۶۰ تولے ہے تو پورے ساٹھ تولے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ یہی صورتحال سونے اور نقدی میں ہے۔ یعنی جب نصاب پورا ہوجائے تو پھر نصاب سمیت ساری رقم کی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ مثلاً اگر کسی کے پاس پورا نصاب ساڑھے باون تولے ہے تو اس مقدار یا وزن کا ۴۰ واں حصہ نکالنا ہوگا اور اگر کسی کے پاس ۶۰۔۷۰ تولے ہوجاتا ہے تو اسے اس پورے وزن کا ۴۰ واں حصہ نکال کر زکوٰۃ ادا کرناہوگی۔ خلاصہ کلام یہ کہ زکوٰۃ صرف زائد پر نہیں ہوگی بلکہ کل پر ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب