سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(149) لونڈیوں والے احکام منسوخ ہو گئے ہیں؟

  • 13932
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3106

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بریڈ فورڈ سے قدیر احمد لکھتے ہیں: امید ہے درج ذیل مسائل میں میری الجھن رفع فرمانے کے لئے آپ اپنا مصروف وقت نکالنے کی کوشش فرمائیں گے اور اگر مناسب ہوتو جواب صراط مستقیم کے آئندہ شمارے میں شائع فرمادیں گے۔

چند دن پہلے تک تو میں یہ سمجھتا رہا کہ اسلام میں عمومی غلامی ایک بری چیز  ہونے کے با وجود ملک یمین (لونڈیاں ) جائز ہے۔ کیونکہ میرے ناقص قرآنی مطالعے کے مطابق خود قرآن نے یہ اجازت دےرکھی ہے اور منکوحہ بیویوں کی طرح کنیزوں کی کوئی تعداد بھی مقرر نہیں۔ کیونکہ  اسلام میں کنیز کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ قتال فی سبیل اللہ  میں حاصل ہو۔ اس لئے ان  کی تعداد مقرر ہی نہیں کی جاسکتی تھی اور لونڈیاں بغیر نکاح کے حلال اور جائز ہیں۔ لیکن اگلے دن نماز تراویح کے بعد ایک ساتھ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں’  نے یہ کہہ کر کہ اب لونڈیوں والے احکام سورۃ محمد کی کسی آیت سےمنسوخ ہوچکے ہیں مجھے شک میں ڈال دیا ہے۔ موصوف نے آیت کا نمبر تو نہیں بتایا لیکن جہاں تک خود میں نے مذکورہ  سورت دیکھی ہے اس میں ملک یمین کے بارےمیں کوئی واضح الفاظ تو نہیں ملے البتہ آیت نمبر ۴ جس میں قیدیوں کا ذکر ہے کچھ غور طلب ہے ۔ مگر غالباً یہ پوری سورت محمد جنگ بدر سے بھی پہلے یا اس کے آس پاس نازل شدہ ہے اور لونڈیوں کے متعلق اجازت کاذکر تودیگر سورتوں کے علاوہ سورہ احزاب میں بھی موجود ہے جو شاید ۴ ہجری میں نازل ہوئی تھی۔

مزید یہ بھی کہ سورہ النساء جو غالباً ۳ ہجری سے ۵ ہجری کے درمیان نازل شدہ ہے میں بھی آیت نمبر ۲۵ کےتحت یہ فرمایاگیا ہے کہ اگر وہ (لونڈیاں ) بد چلنی کی مرتکب ہوں تو انہیں خاندانی عورت (محصنات ) سے آدھی سزادی جائے۔ تعجب ہے کہ بعد کے زمانے میں نازل شدہ احکامات  پہلے نازل شدہ قرآن سے کیسے منسوخ قرار پائیں؟

مجھے تسلیم ہے کہ ملک یمین اور اسیران جنگ سےمتعلق یہ احکام اس وقت دیئے گئے تھےجب آج کی طرح  جنگی قیدیوں کے تبادلے کا معقول بندوبست نہ تھا اب تو شاید ایسی نوبت نہ آئے مگر اس کے باوجود جہاں تک حلت اور حرمت یاجائز ومنسوخ کا تعلق ہے وہ آج بھی جائز ہے او ر آئندہ بھی جب ویسے حالات پیش آئیں جائز ہوں گی۔ چونکہ اسلام ایک ابدی دین ہے ا س لئے بھی اس کا تقاضا ہے کہ وہ جائز ہی ہوں۔

میں یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میں دولت مند عیسائیوں کی وکالت نہیں کرتا جو شاید یہ سمجھیں کہ زرخرید عورت بھی کنیز کی تعریف میں داخل ہے۔ لیکن قرآن اور رسول اللہ ﷺ نے جو اجازت دی ہے وہ اجازت ہی رہنی چاہئے۔

اس ضمن میں ایک اور روایت بھی وضاحت طلب ہے وہ یہ کہ ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ اجتہاد کرنے والا اگر غلطی کرے تو ایک نیکی ملےگی اور اگر اس کا فیصلہ ٹھیک اور شریعت کے مطابق ہوتو دوہرا ثواب ہوگا ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بات قاضیوں اورفقیہوں کے لئے ہے جو کسی بات کا فیصلہ کرنے کےمجازہوں اور پھر کتاب و سنت یا آثار صحابہ میں وہ کچھ نہ پاتے ہوں ۔ ورنہ اگر یہ معاملہ ہر ہما شما تک وسیع کردیا جائے تو دین کا تیاپانچا ہوجائے گا کیوں کہ اس کی ایک مثال شاید روزنامہ جنگ میں گزشتہ دنو ں آپ کی نظر سے بھی گزری ہوگی جب ایک عالم دین نے روزے سے متعلق اپنا اجتہاد پیش کیاتھا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام نے غلامی کےموضوع پر کچھ عرصہ پہلے ایک مفصل مضمون صراط مستقیم میں شائع ہوچکا ہے  اس موضوع پر مفصل معلومات کےلئے اس مضمون کی طرف رجوع کیجئے ۔ مفید رہے گا ۔ تاہم آپ کے سوال کےجواب میں مختصراً چند گزارشات پیش کررہاہوں۔

(۱)آپ کے دوست نے سورہ محمد کی جس آیت کا حوالہ دیا ہے وہ آیت نمبر ۴ ہی ہے اس میں لونڈیوں سےشادی یا ان کے بارےمیں خصوصی مسائل یا احکام کا ذکر تونہیں لیکن اس حد تک آپ نے درست حوالہ دیا کہ اس آیت میں غلاموں اور لونڈیوں سےمتعلق عمومی احکام کا ذکر بہرحال موجود ہے اور بعض لوگوں کو اس آیت سے غلامی  کےنظام کی منسوخی کاشبہ بھی ہوا۔

(۲)اس آیت نمبر ۴ کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

’’اور جب تم کفار کے مقابلے میں جاؤ تو ان کی گردنیں مارو یہاں تک کہ جب ان کی قوت توڑ چکو تو انہیں مضبوطی سے پکڑلو (یعنی قید کرلو) اس کےبعد یا تو احسان کرکے (بلامعاوضہ) انہیں چھوڑدو یا معاوضہ لےکر انہیں آزاد کرو۔‘‘

یہ آیت سے اس حصے کا ترجمہ ہے جس میں قیدیوں سے متعلق بعض احکام کا ذکر ہے۔ جس کا بنیادی طورپر مفہوم یہ ہے کہ جب کفار کی قوت توڑکر ان کے لوگوں کو تم قیدی بنا لو تو پھر ان قیدیوں کےبارے میں یہ حکم ہے یا تو بطور احسان انہیں چھوڑدواور یا مال لےکر انہیں چھوڑ و ۔ بعض نے معاوضے میں تبادلے کو بھی شامل  کیا ہے یعنی مسلم قیدیوں کے بدلے میں انہیں چھوڑیں۔

(۳)بدر کے قیدیوں کے بارےمیں نبی کریمﷺ نے اس طرح کا فیصلہ فرمایا تھا کہ فدیہ لےکر انہیں چھوڑدیا جائے۔ مگر اس کےبعد سورہ انفال کی آٰیت نمبر۲۷ نازل ہوئی اور اس طرح قیدی بنانے کی بجائے قتل کرنے کو ترجیح دی گئی اور بدر کے قیدیوں کے بارے میں یہ آیت سورہ محمد کے بعد نازل ہوئی۔

یہاںسورہ توبہ کی آیت ۲۹ بھی قابل ذکر ہے جس میں کفار کے ساتھ لڑائی حکم دیاگیا یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں یا جزیہ دینا قبول کرلیں۔

اسی طرح سورہ توبہ کی ۵ ویں آیت بھی قابل غور ہے جس میں کہاگیا کہ مشرکین سےجنگ کرو یہاں تک کہ وہ راہ راست پر آجائیں۔

بعض ائمہ نے اس آیت کو باقی تمام آیتوں کےلئے ناسخ قراردیا ہے۔

اب جب سورہ توبہ سورہ محمد کے بعد نازل ہوئی  ہے توظاہر ہے کہ قیدیوں کو آزاد کرنے کے بارے میں سورہ محمد میں جو ذکر ہے وہ عمومی اس لئے نہیں کہ اس کے بعد بھی قیدی بنائے گئے اور قرآن میں انہیں چھوڑنے  کی بجائے بعض حالات میں قتل کرنے کا حکم بھی دیا گیا اور قرآن میں انہیں چھوڑنے کی بجائے بعض حالا ت میں قتل کرنے کا حکم بھی دیا گیا اور اس آیت کے نازل ہونےکے بعد بھی بعض قیدیوں کو فتنہ دبانے اور دشمن کی قوت  کچلنے کی خاطر قتل کیا گیا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ سورہ محمد کی اس آیت سے غلاموں یا لونڈیوں کے بارے میں احکام منسوخ ہوچکے ہیں ۔ بلکہ بظاہر اس کے بعد نازل ہونے والی آیات اسے منسوخ کررہی ہیں۔

(۴)آپ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ خاص حالات میں اسلام نے قیدیوں کے بارے میں بعض احکام دیئے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غلاموں اور لونڈیوں کی بڑی تعداد انہی حالات کی وجہ سے مسلمانوں کے قبضہ میں آئی جن سے برتاؤ اور سلوک کے بارے میں قرآن و سنت میں مفصل احکام بیان کئے گئے ہیں۔

(۵)دراصل اسلام نے قیدیوں (مرد یا عورتوں) کے بارے میں جتنے احکام بھی دیئے اور جن میں سے بعض کا مذکورہ آیت میں ذکر کیا گیا وہ مخصوص حالات و ظروف کا تقاضا تھے۔بعض حالات میں بطور احسان چھوڑنے کا ذکر ہے اور بعض حالات میں فدیہ لےکر تبادلے میں آزاد کرنے کا ذکر ہے یہ ساری صورتیں اپنے وقت میں درست تھیں۔ اگر ہم ان آیات میں سے کسی کو بھی منسوخ قرار نہ دیں تب بھی پر آیت کا مفہوم اپنی جگہ اور اپنے مقام پر درست ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود غلامی کا نظام وقت کی ایک ضرورت کے تحت موجود تھا۔ اس لئے غلاموں اور لونڈیوں کے مفصل احکام بیان کئے۔

اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس دور میں غلامی کا جو بدترین نظام قائم تھا ‘اسلام نے اسے بتدریج ختم کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان حالات میں ایک مدت تک کےلئے اس بین الاقوامی  نظام سے چھٹکار ا بھی ممکن نہ تھا۔ غلامی کےخاتمے کے سلسلے میں اسلام نے جو مثبت راستہ اختیار کیا اور اس  کی جس قدر حوصلہ افزائی کی‘ اس کےثبوت یا شاہد کے طور پر سورہ محمد کی مذکورہ آیت بھی پیش کی جاسکتی ہے۔

اور جس دور میں بھی حالات کاتقاضا یا مجبوری اس شکل میں سامنے آئے جیسے اس دور میں تھی تو قیدیوں کے بارے میں حالات و ظروف کے مطابق کوئی بھی نظام جاری کیا جاسکتا ہے اور وقت کے خلفاء اسوہ رسول کو یقیناً سامنے رکھیں گے۔

جہاں تک آپ کےدوسرے سوال کا تعلق ہے تو آپ کی رائے بالکل درست ہے کہ اجتہاد وہی شخص کرسکتا ہے جو اس منصب کا اہل ہوگا۔ ہر جاہل یا ان پڑھ کو اجتہاد کا حق نہیں دیا جاسکتا  اور اجتہاد کےلئے قرآن وسنت ‘لغت ‘اصول اور دوسرے بنیادی علوم میں دست رس ضروری  ہے جو فہم اسلام کا ذریعہ ہیں۔ محض اردو کی چند کتابیں پڑھ کر کوئی شخص مجتہد  نہیں بن سکتا۔ دین کا اصل ماخذ قرآن و سنت ہے اس لئے اجتہاد کے لئے قرآن کی زبان یعنی عربی پر ہر پہلو سے عبور حاصل کرنا اہم شرائط میں سے  ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص333

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ