السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لندن سے الحاج حکیم عبدالرحمن لکھتے ہیں ’’ آپ کا ماہنامہ صراط مستقیم ‘‘ مطابق اگست ستمبر ۱۹۸۱ء پڑھا‘ اس میں صفحہ ۱۳ باب حلال حرام کی پہچان ’’ گوشت کے بارے میں ‘‘ ہماری نظر سے گزرا۔ اس میں قرآن شریف کی آیت
﴿إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَالَّذينَ هادوا وَالصّـٰبِـٔونَ وَالنَّصـٰرىٰ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ وَعَمِلَ صـٰلِحًا...﴿٦٩﴾... سورة المائدة
کا ترجمہ دیکھا تو اس میں صائبین کا ترجمہ’’ بے دین‘‘ لکھا ہے۔ اب اگر واقعی صائبین کا ترجمہ بے دین ہے تو پھر ان کو اہل کتاب اور مومنین کےساتھ کیوں گنا گیا۔ اس صفحہ پر آپ نےلکھا ہے کہ مجوسیوں اور مشرکوں دونوں کا ذکر اس جگہ نہیں کیا۔ اگر ان دونوں حلقوں میں سے بھی کسی ملت کا صابیوں یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح آخرت میں خوش بختی اور سعادت کا کوئی شائبہ ہوتا تو اس کا بھی خدا نے ذکر کیاہوتا۔ اگر ان کی بھی کوئی کتاب ہوتی تو نسخ و تبدیلی سے پہلے وہ ہدایت پر ہوتے ۔ اب آپ نے لکھا ہے کہ مجوسی اور مشرکین کا ذکر اس آیت میں اس لئے نہیں کیا کہ ان کا اہل کتاب اور مومنوں سے کوئی سروکار نہیں۔ تو پھر اشکال یہ ہوتا ہےکہ جب ان دونوں کا ذکر نہیں تو پھر صائبین کا ذکر کیوں کیاگیا ہے ۔ حالانکہ ایک طرف تو آپ نے اس کا ترجمہ بے دین لکھا ہے تو کیا ’’ بے دین ‘‘ کا آخرت میں سعادت مندی کا کوئی شائبہ رہتا ہے۔ میرے خیال سے اگر ’’ بے دین ‘‘ ترجمہ کیا جائے تو کافی اشکال پیدا ہوتا ہے۔ کیا قدیم مفسرین نے اس کا ترجمہ بے دین کیا ہے؟
جہاں تک میرا خیال ہے صائبین یہود و نصاریٰ کی طرح اہل کتاب میں ہوسکتے ہیں۔ اتفاق سے ۱۹۵۳ءمیں میراعراق جانا ہوا۔ وہاں میں نے ایک قوم دیکھی جن کے چہرے پر داڑھیاں (ریش) تھیں۔ سنار کا کام کرتے تھے اور ان کی علیحدہ عبادت گاہیں بھی تھیں ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ داؤد علیہ السلام کی امت ہے جس طرح یہودی موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اسی طرح یہ داؤد علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں کو صائبین کہاجاتا ہے ۔ اب غالباً اسی وجہ سے قرآن شریف کی مذکورہ آیت میں صائبین کا ذکر مومنین اور اہل کتاب کے ساتھ کیا
گیا ہے کہ وہ بھی حضرت داؤد علیہ السلام پر ایمان رکھتےہیں ۔ اب میں نے جتنے ترجمے پڑھے سب میں صائبین کا مطلب بے دین لکھا ہے۔ سوائے مولانا مودودیؒ کے کہ انہوں نے صائبین کا ترجمہ صائبین ہی لکھا ہے۔ امید ہے آپ اس بات پر واضح جواب لکھ کر ہمارے ذہن کو صاف کریں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دراصل آپ نے جس مضمون کا حوالہ دیا ہے وہ ہمارے ایک فاضل دوست مولانا منیر قمر نے متحدہ عرب امارات سے ایک جلیل القدر سعودی شیخ عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ کے گراں قدر مقالے کا ترجمہ کرکے بھیجا تھا اور وہ قمر صاحب کےنام سے ہی شائع ہوا تھا اور صائبین کا ترجمہ ’’ بے دین ‘‘ شاید انہوں نے ہی کیا ہوگا۔ اس سلسلے میں آپ نے جو سوال اٹھایا ہے وہ کافی اہمیت رکھتا ہے لیکن صابی کا جو اردو میں بے دین معنی کیا جاتا ہے وہ ہمارے ہاں عرف عام میں ’’ بے دین ‘‘ کا جو مفہوم لیا جاتا ہے وہ مراد نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں مناسب تو یہی ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں ذرا وضاحت کردی جائے جنہیں صائبین کہاگیا ہے اور اگر اس کا ترجمہ صائبین ہی کردیا جائے تو وہ زیادہ بہتر ہے۔ جہاں تک اس لفظ سےمراد لوگوں کے عقائد کا تعلق ہے تو قدیم مفسرین کی آراء بھی اس سلسلے میں مختلف ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا فرمان ہے کہ یہ لوگ اہل کتاب میں سے تھے لیکن بعض احکام میں ان سے اختلاف کرنے کی وجہ سے الگ ہی ایک مستقل گروہ بن گئے۔
حضرت مجاہدؒ کے نزدیک ان لوگوں کے عقائد یہودیت اور مجوسیت کےبین بین تھے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ زبور پڑھتے تھے۔ فرشتوں کی عباد ت کرتے تھے۔ کعبہ کی طرف منہ کرتے تھے اور مختلف ادیان کی کچھ نہ کچھ باتیں لے لیتے تھے۔
حضرت ابن زید ؓ کا قول ہے کہ یہ لوگ جزیرہ موصل میں آباد تھے۔ عقیدہ توحید تھا لیکن کسی خاص نبی یا کتاب کو نہیں مانتے تھے اور نہ ہی ان کے ہاں کوئی مخصوص شرعی نظام تھا۔
ان آراء کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ شروع شروع میں تو کسی باقاعدہ دین کو مانتے تھے لیکن بتدریج اس سےمائل ہوکرچند من گھڑت عقائد و اعمال کو قبول کرنےلگے۔ لغت میں صبا کا معنی مائل ہونا ہے یعنی ایک دین سے دوسرے دین کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے انہیں صابی کہاگیا۔ جیسا کہ مشرکین مکہ بعض اوقات صحابہ کرامؓ کو بھی صابی کہتے تھے۔ اس لئے کہ وہ اپنے باپ دادا کے دین سے پھر گئے تھے یا بعض روایات پڑھتے تھے۔ اس اشتراک کی وجہ سے انہوں نے صحابہ کرامؓ کو بھی صابی کہنا شروع کردیا ۔ اس لئے یہ بات قرین قیاس ہے کہ صائبین شروع شروع میں دین حق پر تھے مگر بعد میں منحرف ہو کر فرشتوں اور ستاروں کی عبادت کرنے لگ گئے۔
مجھے آپ کے اس خیال سے اتفاق ہے کہ وہ مجوسیوں یا مشرکین کی طرح ’’ بے دین ‘‘ نہ تھے اور قدیم مفسرین کے جو اقوال نقل کئے ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ دین کی ایک کھچڑی سی انہوں نے بنالی تھی اور اصل دین سے منحرف ہوچکے تھے۔ آپ نے یہ جو مشاہدہ بیان کیا ہے کہ عراق میں ان لوگو ں کو آپ نے دیکھا جو اپنے آپ کو صائبین کہتے ہیں ویسے تو ایک نئی اور معلوماتی چیز ہے لیکن حضرت قتادہ ؓ اور ابن زید کے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ لوگ جزیرہ موصل (عراق ) میں تھے اور یہ کہ وہ زبور کی تلاوت بھی کرتے تھے۔ قدیم مفسرین کی رائے تو یہ ہے کہ یہ لوگ نزول قرآن کے وقت تو تھے مگر اب ان کا وجود نہیں پایا جاتا۔ جب کہ آپ کے بیان کی تصدیق کی جائے تو پھر اس نا م کے لوگ اب بھی عراق میں موجود ہیں۔
بہرحال ان سارے اقوال کی روشنی میں یہ کہنا ہی بہتر ہے کہ یہ لوگ معروف معنوں میں بے دین نہ تھے لیکن اصل دین سےمنحرف ہوگئے تھے اس لئے انہیں صائبین کہاگیا او ر چونکہ اصلاً وہ نبی اور کتاب کو ماننے والے تھے اس لئے ان کا ذکر اہل کتاب کے ساتھ ہی کردیا گیا ۔ اس سلسلہ میں دور حاضر کے مفسر سید قطب شہیدؒ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں لکھتے ہیں۔
’’ راجح بات تو یہ ہے کہ بعثت نبویﷺ سے پہلے ایک گروہ نے بتوں کی عبادت سے منہ موڑکر مشرکین عرب سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور صحیح عقیدے کی تلاش کرنے لگے پھر توحید پر قائم ہوئے اور کہتے تھے کہ وہ ملت ابراہیمی پر ہیں۔ اپنی قوم کے طریقہ عبادت سے مائل ہو کر الگ ہوگئے تھے ۔ اس لئے انہیں صابی کہاگیا جیساکہ مشرکین مسلمانوں کو بھی کہتے تھے جو بعض تفسیروں میں انہیں ستارہ پرست کہاگیا یہ قول صحیح نہیں‘‘ (في ظلال القرآن جلد ۱ ص ۷۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب