السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برمنگھم سےمحمد حسین دریافت کرتےہیں کہ عید کے موقع پر اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ نوافل پڑھتے ہیں حالانکہ ہم نے تو یہ سن رکھا ہے کہ عید کی نماز سے پہلے کوئی نماز نہیں ہوتی۔اس بارے میں صحیح موقف رسالے میں پیش کرکے شکریئے کا موقع دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ ﷺ سے عید کی نماز سے پہلے کوئی نفل یا سنت پڑھنا ثابت نہیں اور اس بارےمیں حضرت عمرو بن شعیب ؓ کی روایت بڑی واضح ہے۔
حدیث کے الفاظ ہیں:
’’عن عمرو بن شعیب عن ابیه ون جده ان النبی ﷺ کبر فی عید ثنتی عشرة تکبیرة سبعا فی الاولی و خمسا فی الاخرة ولم یصل قبلها ولا بعدها۔‘‘ (ابن ماجه مترجم ج ۱ کتاب اقامة الصلوة باب ماجاء فی کم یکبر الامام فی الصلوة العیدین ص ۶۳۴ رقم الحدیث ۱۳۷۷)
’’حضرت عمرو بن شعیب ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں‘ پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔‘‘
اس لئے اس بارے میں تو کوئی شبہ نہیں کہ عید کی نماز سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہیں۔ لیکن بعض اوقات کچھ لوگوں کو اس لئے بھی مغالطہ ہوتا ہے کہ جب نماز عید مسجد میں پڑھی جاتی ہے تو وہ مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت تحیتہ المسجد پڑھتے ہیں پھر نماز عید کے انتظار میں بیٹھتے ہیں کیونکہ دوسری طرف یہ حدیث بھی بڑی واضح ہے جس میں نبی کریمﷺ نے یہ فرمایا کہ جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو اس وقت تک مسجد میں نہ بیٹھے جب تک دو رکعت ادا نہ کرلے۔ اس لئے تحیتہ المسجد کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے۔
چونکہ نماز عید سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی‘ اس لئے بہتر یہی ہے کہ عید کی نماز سے قبل کوئی نفل سنت نہ پڑھا جائے۔ چاہے نماز مسجد میں ہو یا میدان میں۔ کیونکہ لوگ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے اسے عید کی نماز کا حصہ سمجھ کر ادا کرنا شروع کردیں گے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب