السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لندن سے حبیب الرحمن لکھتےہیں کہ کیا عورتیں نماز عید میں شامل ہوسکتی ہیں؟ لندن کی مرکزی مسجد میں عورتیں جس طرح بن ٹھن کر آتی ہیں ’اس سے بہت دکھ پہنچتا ہے۔ کیا انہیں روکا نہیں جاسکتا ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اکرمﷺ کےدور میں عورتیں نہ صرف عید کی نماز میں بلکہ نماز جمعہ اور پنجگانہ نماز کی ادائیگی کےلئے بھی مسجد میں آتی تھیں۔ عید کے بارے میں تو خاص طور پر بخاری ومسلم کی حدیث سے جواز ثابت ہوتا ہے۔حدیث کے الفاظ ہیں:
’’عن ام عطیة قال امرنا ان نخرج الحیض یوم العیدین و ذوات الخدور فیشهدن جمائة المسلمین و دعوتهم و تنزل الحیض عن مصلاهن قالت امراة یارسول الله احدنا لیس لها جلباب قال لتلبسها صاحبتها من جلبابها-‘‘(فتح الباري ج ۳ کتاب العیدین باب خروج النساء والحیض الی المصلي ص ۱۴۳ رقم الحدیث ۹۷۴)
’’حضرت ام عطیہؓ سے روایت ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ حیض والی عورتوں اور پردے والی عورتوں کو بھی دونوں عیدوں میں باہر ساتھ لےکر جائیں وہ مسلمانوں کی جماعت اور دعا میں شریک ہوں اور حیض والی عورتیں نماز میں شامل نہ ہوں ۔ ایک عورت نے کہا اللہ کے رسول اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو وہ کیسے شامل ہو؟ آپ نے فرمایا اس کی کوئی ساتھی اپنی چادر اوڑھالے۔‘‘
اب اس حدیث سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ خواتین نماز عید کےلئے عید گاہ میں جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کےساتھ عورتوں کےلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شرم و حیاء کےتقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے باپر دہ لباس میں باہر نکلیں اور بن ٹھن کر یا میک اپ کرکے ہرگز عید گاہ میں نہ جائیں۔
جو عورتیں محض اپنے حسن کی نمائش کےلئے مرکزی مسجد لندن یا کسی دوسرے مرکز میں جاتی ہیں وہ گناہ گار ہیں۔ ایسی عورتوں کو مساجد سے دور رکھنے کےلئے مسجد کی انتظامیہ کو اقدامات کرنےچاہئیں۔
مسلم شریف کی ایک حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو عورت مسجد میں حاضر ہونا چاہتی ہے وہ خوشبو کو ہاتھ تک نہ لگائے۔
ایسے مرد بھی گناہ گار ہیں جن کی عورتیں بناؤ سنگار کرکے اس طرح مردوں کے سامنے آتی ہوں۔ عید ہو یا کوئی دوسرا موقع یہ بہرحال ناجائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب