السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لندن سے عبدالکریم لکھتےہیں۔
رمضان المبارک میں مجھے اور میرے ساتھیوں کو کچھ ایسے مسائل پیش آئے جن کے بارے میں بعض مذہبی لوگوں سے ہمیں کوئی واضح اور تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ آپ اگر درج ذیل مسئلوں پر قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کر دیں تو بہت سے لوگوں کےلئے فائدہ مند ہوگا۔
۱۔اگر کسی آدمی پر روزے کی حالت میں غسل فرض ہوجائے یعنی نیند کی حالت میں احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا یا جاری رہے گا؟
۲۔ایک آدمی نے یہ سمجھا کہ سورج غروب ہوگیا اور روزہ افطار کرنے کا وقت ہوگیا اور اس نے افطار کردیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ابھی وقت نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے روزہ وقت سے پہلے چھوڑ دیا کیا اس کا روزہ ہوجائے گا؟
۳۔کیا کوئی شخص روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے بوس وکنار کرسکتا ہے؟
۴۔مسافر کو روزہ چھوڑنے اور اس کے بعد قضا دینے کی اجازت ہے۔ کیا ہوائی جہاز’ریل گاڑی یا کار پر سفر کرنے والا بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱)اگر کسی شخص کو بے خبری میں روزے کی حالت میں احتلام ہوگیاتو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ایک آدمی سحری کھا کر اور فجر کی نماز پڑھ کر سوگیا۔ مگر جب بیدار ہوا’اس پر غسل فرض ہوچکا تھا۔ ایسی حالت میں اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ہاں اگر اس نے جان بوجھ کر کوئی ایسا عمل کیا جس کی وجہ سے احتلام ہوا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
(۲)جس شخص نے یہ سمجھ کر روزہ افطار کردیا کہ سورج غروب ہوچکا ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ابھی وقت نہیں ہوا تھا تو اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا اور ایک روزہ دوبارہ رکھنا ہوگا۔
(۳)روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے بوس وکنار جائز ہے اور بنیادی طور پر اس کی اجازت ہے۔ لیکن اگر یہ خطرہ ہوکہ کنٹرول نہیں کرسکے گا اور کسی غلطی کا ارتکاب کرکے کچھ اور کر بیٹھے گا تو ایسے آدمی کے لئے احتیاط ہی بہتر ہے۔
(۴)مسافر کےلئے قرآن و سنت میں امر کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزہ ترک کر دے اور بعد میں اس کی قضا دے۔ اس سلسلے میں ہوائی جہاز’ریل کا ر یا پیدل سفر کا کوئی فرق نہیں ہے۔ کیوں کہ اس اجازت کاسبب یہ نہیں کہ اس کو تکلیف اور مشقت کتنی برداشت کرنا پڑی بلکہ اصل سبب خود سفر ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی آدمی سفر پر ہوگا تو دوران سفر جس طرح وہ نماز قصر کرتا ہے اسی طرح روزہ چھوڑنے کی بھی اسے رخصت ہے۔ سفر آرام دہ ہو یا تکلیف دہ‘ اس میں کوئی فرق نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب