السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برمنگھم سے ایک صاحب روزے سے متعلق درج ذیل سوالات دریافت کرتےہیں
(الف)بعض لوگ روزہ رکھنے سے پہلے یہ الفاظ کہتے ہیں کہ و بصوم غد نویت۔ جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نیت کےلئے کوئی الفاظ مقرر نہیں اس کا تعلق دل سے ہے۔ صحیح مسئلہ کیا ہے؟
(ب)ایک شخص غلط فہمی کی وجہ سے روزہ وقت سے پہلے افطارکردیتا ہے ۔ کیااس کے لئے کفارہ ہے؟
(ج)ایک شخص بہت بوڑھا اور کمزور ہے روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن اتنا غریب ہے کہ فدیہ بھی نہیں دے سکتا تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟
(د)ایک شخص رات کو بیوی کے ساتھ مباشرت کرتا اور پھر سحری کھا کر روزہ رکھ لیتا ہے‘غسل نہیں کرتا اور نہ ہی فجر کی نماز پڑھتا ہے بلکہ اسی طرح سوجاتا ہے کیا اس کا روزہ ہوجائے گا۔
(ہ)کچھ لوگ رات کا کھانا کھا کر سوجاتے ہیں اور سحری کے وقت کھانے کے لئے نہیں اٹھتے ’روزہ رکھ لیتے ہیں۔ کیا روزہ ہوجائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(الف)فرض روزے کےبارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے فجر سے پہلے نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہوگا لیکن نیت چونکہ دل کے ارادے کو کہتے ہیں اس لئے کوئی خاص الفاظ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ و بصوم غد نویت کے الفاظ بھی قرآن و حدیث یا سلف سے ثابت نہیں۔ اگر نیت کےلئے کوئی مخصوص الفاظ ہوتے تو جس طرح روزہ افطار کرنے کی دعائیں رسول اکرم ﷺ سے ثابت ہیں اسی طرح روزہ رکھنے یا نیت کے وقت کے الفاظ بھی آپ سے ثابت ہوتے لیکن ایسی کوئی چیز ثابت نہیں۔
(ب)جس شخص نے غلطی سے روزہ افطار کردیا یعنی یہ سمجھ لیا کہ سورج غروب ہوگیا اور افطاری کا وقت ہوگیا تو اس نے کھا پی لیا۔اس پر کفارہ تو نہیں ہوگا لیکن ایک روزہ دوبارہ رکھنا پڑے گا۔ اس لئے کہ اتمواالصیام الی الیل (رات آنے تک روزہ پورا کرو) اس پر عمل نہیں ہوا۔ اس لئے ایک روزہ قضا کرے۔
(ج)جو شخص بوڑھا اور ضعیف ہے کہ روزہ نہیں رکھ سکتا اور ساتھ ہی اتنا غریب ہے کہ فدیہ بھی نہیں دے سکت اس لئے روزے اور فدیے دونوں کی معافی ہے یعنی روزہ بھی فرض نہیں اور کفارہ بھی نہیں کیونکہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ (البقرۃ:۲۸۶) ’’اللہ کسی کوبھی اس کی طاقت سے باہر کسی عمل کی تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
(د)جو شخص رمضان کی رات کو بیوی سے مباشرت کرتا ہے اسے چاہئے کہ سحری کھانے سے پہلے غسل کرے۔اگر غسل کا وقت نہیں تو وضو کرکے سحری کھالے اور بعد میں غسل کرکے نماز پڑھے جو شخص اس حالت میں سحری کھاکر سوجاتا ہے نہ غسل کرتا ہے نہ نماز پڑھتا ہے اس کا روزہ تو ہوجائے گا لیکن سخت گناہ گار ہوگا اور رمضان المبارک میں ایسے گناہ اور معصیت کےکاموں سے بچنا چاہئے۔
(ہ)جو آدمی رات کو سوجاتا ہے اور سحری کھائے بغیر روزہ رکھ لیتا ہے ایسے آدمی نے اگر روزہ کی نیت نہیں کی تو روزہ نہیں ہوگا اور اگر نیت روزے کی ہے تو پھر سحری کھانا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے: ’’فصل ما بین صیامنا و صیام اهل الکتاب اکل السحر۔‘‘ (مسلم مترجم ج ۳ کتاب الصیام فضل السحور ص ۱۰۸)
یعنی ہمارے روزے اور یہود نصاریٰ کے روزے کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہم سحری کھاتے ہیں اور وہ نہیں کھاتے تھے۔ ایک دوسری حدیث ہے: ’’تسحروا فان فی السحور برکة۔‘‘ (سنن ابن ماجة ج ۱ کتاب الصیام باب ماجاء فی المسحور ص ۸۳۸ رقم الحدیث ۱۶۹۲)
سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب