سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

عیسیٰ علیہ السلام اور عام انسان کی پیدائش میں وقفہ

  • 139
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3594

سوال

عیسیٰ علیہ السلام اور عام انسان کی پیدائش میں وقفہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم کیا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا وقفہ اتنا ہی تھا جتنا کہ ایک عام انسان کیلیے ہے؟ یعنی نو ماہ کیا قرآن و حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے؟ جزاک اللہ خیراَ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مدت حمل کے بارے مفسرین کا اختلاف ہے۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس بارے سات اقوال کا تذکرہ کیا ہے یعنی فورا ہی وضع حمل ہو گیا یااسی دن نو گھڑیوں کے بعد وضع حمل ہوا یا٩ مہینوں کے بعد ہوا یاتین گھڑیوں میں ہوا یا آٹھ مہینوں میں ہوا یا چھ مہینوں میں ہوا یا ایک گھڑی میں ہوا۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وفي مقدار حملها سبعة أقوال .
أحدها : أنها حين حملت وضعت ، قاله ابن عباس ، والمعنى : أنه ما طال حملها ، وليس المراد أنها وضعته في الحال ، لأن الله تعالى يقول : { فحملته فانتبذت به } ، وهذا يدل على أن بين الحمل والوضع وقتا يحتمل الانتباذ به .
والثاني : أنها حملته تسع ساعات ، ووضعت من يومها ، قاله الحسن .
والثالث : تسعة أشهر ، قاله سعيد بن جبير ، وابن السائب .
والرابع : ثلاث ساعات ، حملته في ساعة ، وصور في ساعة ، ووضعته في ساعة ، قاله مقاتل بن سليمان .
والخامس : ثمانية أشهر ، فعاش ، ولم يعش مولود قط لثمانية أشهر ، فكان في هذا آية ، حكاه الزجاج .
والسادس : في ستة أشهر ، حكاه الماوردي .
والسابع : في ساعة واحدة ، حكاه الثعلبي

کتاب وسنت میں ان میں کسی قول کا صراحت سے بیان موجود نہیں ہے۔ غالب امکان یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم علیہ السلام کی مدت حمل بھی وہی ہے جو عام خواتین کی ہوتی ہے یعنی ٨ سے ٩ ماہ، کیونکہ اس سے کم مدت حمل کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے لہذا اسے نارمل مدت حمل پر محمول کرنا ہی بہتر ہے۔

فحملته فانتبذت به مكانا قصيا

پس حضرت مریم علیہ السلام حاملہ ہوئیں اور اس حمل کو لے کر ایک دور کے مکان میں چلی گئیں۔ اس میں حمل اور علیحدہ ہونے کو دو مقامات کے ساتھ خاص کیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فورا وضع حمل نہیں ہوا تھا بلکہ حمل اور وضع میں کچھ مدت تھی۔

فأجاءها المخاض إلى جذع النخلة

کے بارے یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں فاء، تعقیب عرفی کے لیے ہے نہ کہ لغوی معنی میں ہے ۔

 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے