السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
والتھم سٹو لندن سے محمد رفیق پوچھتے ہیں
ثواب کےکیا معنی ہیں۔ کسی کے مرنے کے بعد اس کے حق میں کیسے ثواب پہنچایا جائے اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ شخص شرک و بدعت کرتا تھا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی کےمرنے کے بعد ثواب پہنچانے کا مسئلہ ہمارے ہاں دیگر بہت سے مسائل کی طرح غلط رنگ اختیا رکرچکا ہے اور اگر قرآن و حدیث کی روشنی میں بغور جائزہ لیا جائے تو اس زمانے میں ایصال ثواب کی جتنی مروجہ شکلیں ہیں وہ خود ساختہ رسومات کے ضمن میں آتی ہیں اور خاندان و برادری کے رسم و رواج بن چکی ہیں یا کچھ مذہبی پیشہ وروں کے کھانے پینے کا ذریعہ ۔ ایصال ثواب کے مسنون طریقے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔کیونکہ صدقہ و خیرات جو میت کے ثواب کےنام پر کیا جاتا ہے وہ صرف نام کا ہوتا ہے اس کےکھانے والے سب دولت مند اور امیر لوگ ہوتےہیں نہ ان کو کھانا جائز ہے اور نہ ان کےلئے صدقے کا مال کھانا جائز ہے۔
ایصال ثواب کی بہترین شکل دعا ہے۔ اگر دعا قبول ہوگئی تو اس کا ثواب پہنچ جائے گا اور اگر دعا قبول نہ ہوئی تو وہ محروم رہے گا۔ کیوں کہ اصل انسان کا اپنا عمل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ یہی فرمایا کرتی تھیں کہ قرآن میں واضح طور پر آگیا ہے کہ (لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ)(النجم)
کہ انسان کےلئے وہی کچھ ہے جو اس نے خود کوشش کی یعنی اسے دوسروں کا کوئی عمل فائدہ نہیں پہنچائےگا۔
جہاں تک صحیح مسلم شریف کی اس حدیث کا تعلق ہے جس میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
اذا مات الانسان انقطع عمله الا من ثلاث صدقة دجاریة او علم ینفع به او ولد صالح یدعواله۔ (مختصر صحیح مسلم للالبانی کتاب الجنائز باب ایصال ثواب رقم الحدیث ۱۰۰۱)
’’یعنی جب انسان مرجاتا ہے تو اس کےعمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے سوائے تین حالتوں کے۔ ایک یہ کہ وہ زندگی میں صدقہ جاریہ کرگیا ہو’اب اس کاثواب اس کےمرنےکے بعد بھی جاری رہے گا۔ دوسرے یہ کہ اس نے علم کا سلسلے جاری کیا اور اس کے علم سے بعدمیں بھی فائدہ حاصل کیاجا رہا ہے اور تیسرے یہ کہ نیک اولاد جو اس کےلئے دعا کرتی ہے۔‘‘ اب حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے مسلک کے مطابق یہ تین عمل جو کسی نہ کسی انداز میں خود انسان کے اپنے ہیں جو فوت ہوا ہے ۔ اس لئے ایک لحاظ سے یہ اس کے اپنے ہی عمل ہیں اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ تین اعمال دوسروں کے ہیں تب بھی ایصال ثواب کی ان تین شکلوں ہی کو ہم اس حدیث سے ثابت کرسکتے ہیں۔ بعض روایات میں حج اور صدقے کا ذکر بھی آتا ہے مگر وہاں بھی اولاد کے بارے میں تخصیص ہے کہ یہ اعمال ان کی اولاد نے کئے تھے بعض علماء نے ان کا مفہوم عام لیا ہے کہ ان سے بنیادی طور پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مرنے کے بعد ثواب پہنچانے کے بعض ذرائع موجود ہیں۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ صدقہ ’خیرات’نوافل ’حج اور قرآن کی قرأت وغیرہ جیسے اعمال جو میت کے لئے کئے جاتے ہیں حضورﷺ کےزمانے میں ان کا عام رواج نہ تھا۔ ہاں اگر اس کی اولاد یا قرابت داروں میں سے کوئی یہ اعمال کرنےکے بعد میت کے لئے دعا کرتا ہے تو یہ جائز ہے کیونکہ دعا تو زندہ اور مردے سب کے لئے کی جاسکتی ہے۔ لیکن مروجہ شکل میں جو اجرت دےکر قرآن کے ذریعے ثواب پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ یہ جائز نہیں ہے۔
اسی طرح بعض دنوں یا تاریخوں کو ان کاموں کےلئے خاص کرنا‘شریعت میں ان کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔برصغیر پاک وہند میں میت کو ثواب پہنچانے کےلئے جو دن مقرر چلے آرہے ہیں اور اب تو ان دنوں کو ایک خاص تقدس حاصل ہوگیا ہے کہ لوگ دینی فرائض چھوڑنےمیں دیر نہیں کرتے ‘حرام کاموں کے ارتکاب سے خوف نہیں کھاتے‘لیکن گیارہویں ‘جمعرات کا ختم یا تیجا ساتوا ں وغیرہ چھوڑنے میں خوف کھاتے ہیں اور ان کی اتنی پابندی کرتےہیں کہ فرائض وواجبات کی اتنی پابندی ہرگز نہیں کرتے۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اس طرح کی رسمیں زیادہ تر ہندؤں سے لی ہیں۔ مشہور مورخ علامہ البیرونی متوفی ۳۰۳ھ لکھتے ہیں کہ’’ اہل ہنود کے نزدیک جو حقوق میت کے وارث پر عائد ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ضیافت کرنااور یوم وفات سے گیارہویں اور پندرہویں روز کھانا کھلانا او ر اس میں ہر ماہ کی چھٹی تاریخ کو فضیلت ہےا سی طرح اختتام سال پر بھی کھانا کھلانا ضروری ہے۔ نو دن تک اپنے گھر کے سامنے طعام پختہ و کوزہ آب رکھیں ورنہ میت کی روح ناراض ہوگی اور بھوک و پیاس کی حالت میں گھر کے ارد گرد پھرتی رہے گی۔ ‘‘ (کتاب الہند ص ۲۷۰)
اس کی تائید مولانا عبیداللہ مرحوم کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے کہ برہمن کےمرنے کے بعد گیارہواں اور کھتری کے مرنے کے بعد تیرہواں اور ویش یعنی بنئے کے مرنے کے بعد پندرہواں یا سولہواں دن اور شودر یعنی بالاہی کے مرنےکے بعد تیسواں یا انتیسواں دن مقرر ہے۔
آگے لکھتے ہیں۔’’ زاں جملہ اسوج کےمہینے کےنصف اول میں ہر سال اپنے بزرگ کو ثواب پہنچانے کا نام سرا دھ ہے اور جب سرادھ کا کھانا بند ہوجائے تو اول اس پر پنڈت کو بلوا کر کچھ بید پڑھواتے ہیں جو پنڈت اس کھانے پر بید پڑھتا ہے وہ ان کی زبان میں ابھشر من کہلاتا ہے۔‘‘ (تحفة الہند ص ۹۱)
اب اندازہ کر لیں کہ مسلمان یہ رسم کس طرح کرتےہیں۔ پنڈت کی جگہ مولوی نے لے لی ہے اور بید کی جگہ قرآن کی تلاوت کرکے اجرت بھی لی جاتی ہے اور کھانے بھی مختلف قسم کے پکائے اور کھائے جاتے ہیں اور لذیز کھانے کھانے والے حاضرین کو ایصال ثواب کا نہ مفہوم معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے انہیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ وہاں ان تمام غیر اسلامی کاموں کو محض پیٹ کی خاطر اسلامی بنانے پر دن رات زور صرف کیا جارہا ہے اور جو مرگ کےبعد میت کے گھر کھانے کی پارٹیاں اور خاندان اور برادری کے اجتماعات بلا کر جشن نہیں مناتا’اسے ایصال ثواب کا منکر کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
رہی یہ بات کہ جس کے بارےمیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ مشرک یا بدعتی تھا’توظاہر ہے جسے آپ جانتے ہی نہیں عموما تو اس کےلئے دعا کرتا ہی کون ہے؟ لیکن اگر آپ کو معلوم ہو کہ وہ مشرک نہ تھا یا عام مسلمان تھا تو اس کےلئے دعا کرنا چاہئے او راپنی دعاؤں میں عام مومنین و موحدین کو شامل کرناچاہئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب