السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مغربی جرمنی سے نثار احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی عیسائی فوت ہو جائے تو اس کی آخری رسوم میں مسلمان کس طرح شرکت کرسکتا ہے۔ نیز کیا مسلمان اس کی بخشش کےلئے دعا کرسکتا ہے؟‘‘
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیر مسلم چاہے عیسائی ہو یا یہودی یا ہندو اور سکھ ان کے جنازے میں مسلمان کے لئے شرکت جائز نہیں اور اپنے مخصوص طریقے اور مذہب کے مطابق آخری رسومات ادا کرتےہیں جنہیں اسلام درست نہیں سمجھتا۔ اس لئے مسلمان کے لئے ان کی کسی بھی مذہبی رسم میں شرکت صحیح نہ ہوگی۔
ہاں البتہ غیر مسلموں کی موت پر ان کے ورثاء اقربا کےساتھ اظہار ہمدردی و تعزیت جائز ہے۔ اس کی اجازت دوباتوں کی بنا پر ہے
اول: یہ کہ اسلام ہمدردی و خیر خواہی کا دین ہے اور انسانی ہمدردی کے تحت مسلمان دوسروں کے دکھ و غم میں شریک ہوسکتا ہے اور ان کے پاس جا کر اظہار افسوس کرسکتا ہے۔
دوم: یہ کہ اس طرح غیر مسلموں پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اچھے تاثرات قائم ہوں گے اور اسلام کی طرف ان کے اندر اس احسن اخلاق کی وجہ سے رغبت و توجہ پیدا ہوسکتی ہے۔ اسلام بنیادی طور پر بد اخلاقی اور بے رخی کو پسند نہیں کرتا اس لئے ایسے مواقع پر غیر مسلموں سے اسلامی اخلاق کے مطابق ہی معاملہ کر نا چاہئے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص معلومات کےلئے ان کی آخری رسومات میں جاتا ہے یعنی خود شریک تو نہیں ہوتا لیکن قریب سے ان کے طریق کار کو دیکھتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بہر حال بنیادی بات یہی ہے کہ انسانی جان سمجھ کر ان سے اظہار افسوس و ہمدردی کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بخاری شریف کی ایک حدیث سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔
حضرت سہل بن حنیفؓ اور حضرت قیس بن سعد ؓ قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو وہ کھڑے ہوگئے۔ انہیں بتا یا گیا کہ یہ تو ذمی تھے یعنی غیر مسلم تو انہوں نے فرمایا:
ان رسول الله ﷺ مرت به جنازه فقام فقیل له انها جنازة یهودی فقال الیست نفسا۔(فتح الباری ج ۳ کتاب الجنائز باب من قام لجنازة یهودی ص ۵۳۳ رقم الحدیث ۱۳۱۲)
’’رسول اکرمﷺکے پاس سے ایک جنازہ گزرا وتو آپ کھڑے ہوگئے ۔ لوگوں نے کہا یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کیا یہ ایک جان نہیں تھی؟‘‘
اب یہاں یہ مراد نہیں کہ آپ یا صحابہ کرام ؓ ان سیتوں کے احترام کے لئے کھڑے ہوئے تھے بلکہ یہ قیام دراصل موت کے اثر کو قبول کرنا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایمان کے اظہار کی نشانی کے طور پر تھا۔ ابن حبان کی ایک روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے کہ ’’انما تقومون اعظاما للذي یقبض الارواح‘‘ (ابن حبان موارد الظمان کتاب الجنائز باب القیام للجنازة رقم ۷۷۰)
’’یہ قیام دراصل اس ذات کی تعظیم کے لئے ہے جو روحوں کو قبض کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح غیر مسلموں سے تعزیت کرنا اور ان کے پاس جا کر اظہار ہمدردی کرنا۔ یہ ان کی بڑاٗیہ نہیں‘ بلکہ اس میں جہاں ایک طرف انسانی ہمدردی کا پہلو او راسلام کے اخلاقی نظام کا ایک حصہ ہے‘ وہاں دوسری طرف موت کے احساس کو عام کرنا اور جس ذات کے قبضے میں موت و حیات ہے‘ اس کی تعظیم کرنا ہے اورقدرت الٰہی کا اعتراف و اقرار برابر ہے چاہے کسی مسلمان کی میت کہ وجہ سے ہو یا عیسائی کی میت سے۔
بہرحال اس طریقے سے عیسائی کی موت پر مسلمان کی شرکت جائز ہے مگر ان کی مذہبی رسومات میں شریک ہونا درست نہیں۔
اسی طرح قرآن حکیم کی واضح نص ہے کہ مشرکین و کفار اور منافقین کےلئے بخشش کی دعا کی اجازت نہیں ۔ خود رسول اکرم ﷺ کو بھی ان کے حق میں دعا کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔اس مسئلے کی درج ذیل آیات قرآنی سےمزید وضاحت ہوجاتی ہے۔
۱۔ (اے نبی ) آپ ﷺ بخشش مانگیں یا نہ مانگیں برابر ہے۔ اگر ستر دفعہ بھی بخشش طلب کریں توا للہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے۔(التوبه:۸۰)
۲۔ نبی اور اہل ایمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کےلئے بخشش مانگیں ۔ اگرچہ وہ ان کے قریبی ہی کیوں نہ ہوں ۔ جب یہ پتہ چل گیا کہ یہ لوگ اپنے بد اعمال کی وجہ سے جہنم والے ہیں (التوبه:۱۳)
۳۔ (اےنبی) جب ان میں سے کوئی مر جائے تو اس پر نہ تو نماز پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں’ کیوں کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور اسی فسق کی حالت میں مرگئے۔ (التوبه ۸۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب