سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) میت پر دوبارہ نماز جنازہ کا حکم؟

  • 13892
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 8560

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

راہدرم سے کرم الٰہی دریافت کرتےہیں

       کیا ایک شخص کسی میت پر دو مرتبہ جنازہ پڑھ سکتا ہے ؟ کیونکہ ایک مولانا صاحب نے ایک بھائی کو یہاں جنازہ پڑھنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ تم یہاں جنازے کی نماز میں شرکت نہ کرو اور پاکستان جا کر جنازہ پڑھ لینا۔ اس لئے کہ وہ آدمی میت کے ساتھ پاکستان جارہاتھا اور ظاہر ہے وہاں دوبارہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ ایک میت پر لوگوں نے نماز جنازہ پڑھی۔ اس کےبعد کچھ لوگ آئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی۔ انہوں نے اس میت پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک میت پر ایک بار نماز جنازہ ہوگئی دوسری بار کچھ لوگوں نے نماز پڑھی اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے جنہوں نے پہلے بھی نماز پڑھی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احناف کے نزدیک دوسری شکل میں ان لوگوں کے لئے نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں جو پہلی نماز  میں شامل ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی معلوم ہونی چاہئے کہ احناف کے نزدیک تو پہلی صورت میں بھی نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ یعنی ایک میت پر دوسری بار جنازہ پڑھنا ان کے ہاں ویسے ہی درست نہیں۔

    مثلاً ایک شخص کی یہاں برطانیہ میں نماز جنازہ ہوگئی تو اب پاکستان میں یا کسی اور جگہ نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی سوائے ولی یا وارث کے اور کوئی دوبارہ نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اب علمائے کرام ایک شخص کو دوبارہ جنازے سے تو روکتے ہیں لیکن ایک میت پر دوبارہ جنازہ پڑھنے سے آخر منع کیوں نہیں کرتے؟

       ہماری تحقیق کےمطابق یہ دونوں باتیں بنیادی طورپر درست نہیں۔ جنازہ میت کے لئے دعا ہے اور بنیادی طور پر دعا کی تکرار ممنوع نہیں ہے اس لئے ایک میت پر ایک سے زائد مرتبہ پڑھا جاسکتا  ہے اور جو شخص ایک مرتبہ پڑھ چکا ہے وہ دوسری نماز میں بھی شریک ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بخاری شریف کی درج ذیل حدیث فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے:

’’عن ابن عباس ان رسول الله ﷺ مربقبر دفن لیلا فقال متی دفن هذا قالواالبارحة قال افلا اذنتمونی قالوا دفناه فی ظلمة اللیل فکرهنا ان توقظک فقام و صففنا خلفه فصلی علیه۔‘‘ (فتح الباری ج ۳ کتاب الجنائز باب الاذان بالجنازة ص ۴۵۴ رقم الحدیث ۱۲۴۷)

’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہےکہ رسول اکرمﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے جس میں ایک آدمی کو رات کے وقت دفن کیا گیا تھا ۔ آپ نے دریافت فرمایا: یہ قبر والا کب دفن کیا گیا ؟ جواب دیا گیا کہ گزشتہ رات کو۔ آپ نے فرمایا تم نے اس کے بارے میں مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ عرض کیا گیا ہم نے اسے رات کے اندھیرے میں دفن کیا اور ہم نے اس وقت آپ کو جگا کر تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا ۔ پس آپ (نماز کےلئے) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنائیں اور آپ نے نماز جنازہ پڑھی۔‘‘ (بخاری و مسلم)

اب اس حدیث سےدو باتیں بڑی واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں:

ایک یہ کہ آپ نے پہلے نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی اور بعد میں قبر پر جا کر آپﷺ نے نماز پڑھی اس طرح ایک میت پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔

دوسری یہ کہ وہ صحابہ کرامؓ جو رات کو دفن کرنے اور جنازے میں شریک تھے انہوں نے بھی آپ کے ساتھ صفیں باندھ کر نماز پڑھی ۔ کیونکہ انہوں نے خود کہا کہ اللہ کے رسول ہم نے رات کو آپ کو اطلاع دیئے بغیر اس کو دفن کردیا’ تا کہ آپ کو زحمت نہ ہو اور پھر وہی لوگ دوبارہ حضورﷺ کےساتھ صفیں باندھ کر شریک ہوجاتے ہیں جس کا مطلب ہے جن لوگوں نے پہلے نماز پڑھی ہوئی ہو وہ بھی دوبارہ پڑھ سکتے ہیں۔

(ب) جو میت دفن کردی گئی تھی اس پر اگر دوبارہ دونوں طریقوں سے نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے تو جو میت ابھی دفن ہی نہیں ہوئی اس پر تو بالاولی دوبارہ پڑھی جاسکتی ہے۔

ایک اور حدیث کا یہاں ذکر مفید ہوگا جو نماز جنازہ کے بارےمیں تو نہیں دوسری نماز کے متعلق ہے لیکن اس مسئلے میں اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔

’’حضرت یزید بن اسودؓ روایت کرتےہیں کہ میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ حجتہ الوداع میں موجود تھا اور میں نے آپ کے ساتھ فجر کی نماز مسجد خیف میں پڑھی ۔ جب آپ فارغ ہوئے تو دیکھا دو آدمی پیچھے چھپے ہوئے ہیں وہ جماعت میں شریک نہیں ہوئے تھے۔آپﷺ نے فرمایا تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ انہوں نے کہاہم اپنے خیموں میں  نماز پڑھ آئے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا جب تم نماز پڑھ آؤ اور پھر تمہیں مسجد میں جماعت مل جائے تو اس نماز میں شامل ہو جایا کرو وہ تمہارے لئے نفل ہو جائےگی۔ ‘‘(ابوداؤد)

اب ظاہر ہے اگر فرض نماز دوبارہ پڑھی جاسکتی ہے تو نماز جنازہ تو فرض کفایہ ہے’ وہ بھی ایک شخص دوبارہ پڑھ سکتاہے۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے پہلے جماعت سے نہیں پڑھی تھی اس لئے جماعت کے ثواب کے لئے وہ دوبارہ شریک ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں ممکن ہے وہ خیمے میں جماعت کے ساتھ پڑھ کر آئے ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ فرض کی نیت سے دوبارہ نہیں پڑھی جاسکتی ہےنفل کی نیت سے فرض پڑھنے والے امام کے پیچھے دوبارہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

بہر حال یہ کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں جس پر لڑائی جھگڑا کیاجائے یا شدت اختیار کی جائے جو شخص ایک ہی نماز جنازہ میں شریک ہوناچاہتاہے‘ وہ بھی قابل ملامت نہیں اور جو دونوں میں شریک ہوا’ اے بھی منع نہیں کرنا چاہئے۔

(ج)قبر پر فاتحہ پڑھنے کے الفاظ زیادہ تر ہمارے ہاں برصغیر میں ہی مروج ہیں۔ حدیث میں تو بخشش و مغفرت کی دعاؤں کا ذکر آتا ہے۔ کم ازکم ہمارے علم میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ قبر پر فاتحہ کا اہتمام کیا جائے۔ بلکہ اس بارے میں مسنون دعائیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔

میت کے دفن کرنے یعنی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد نبی کریمﷺ نے ثابت قدمی کے لئے دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔

’’حضرت عثمانؓ فرماتےہیں کہ رسول اکرمﷺ جب میت کی تدفین سےفارغ ہوتے تو قبر کے پاس ٹھہرتے اور لوگوں سے فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال ہوگا۔‘‘(ابوداؤد)

یہ تو دفن کے فوراً بعد دعا کا مسنون طریقہ ہے۔ اس کے بعد قبروں کی زیار ت کی جائے تو اس سے غرض یہ ہونی چاہئے کہ مردوں کے لئے بخشش کی دعا کی جائے اور قبرستان میں موت و آخرت یادکرکے عبرت حاصل ہو۔ یہ زیارت تو مشروع اور جائز ہے بلکہ اس زیارت کو امام ابن حزمؒ نے عمر میں کم ازکم ایک مرتبہ فرض قرار دیا ہے۔ لیکن قبر والوں سے مراد مانگنے’چڑھاوے چڑھانے یا وہاں جا کر سجدے کرنے اور جھکنے کےلئے جانا’ یہ زیارت قرآن وحدیث کی روشنی میں حرام ہے۔ بلکہ ایسی زیارتوں میں کئے جانے والے بعض اعمال شرک کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔

فوت شدہ لوگوں کے لئے دعائے مغفرت اور اپنے لئے عبرت کی غرض سے اگر کوئی کسی قبر پر جائے تو وہاں دعاکرنے کا مسنون طریقہ حدیث میں اس طرح آتا ہے۔

صحیح مسلم اور سنن نسائی میں حضرت بریدہ اسلمیؓ سے روایت ہےکہ سر وردوعالمﷺ صحابہ کرامؓ سے فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی قبرستا ن جائے تو سب سے پہلے یہ الفاظ کہے:

السلام علیکم اهل الذیار من المومنین والمسلمین انا ان شاء الله بکم لا حقون انتم فرطنا و نحن لکم تبع۔ ونسال الله لتاولکم العافیة (مسلم کتاب الجنائز باب مایقول عند دخول القبور)

’’اے ان گھروں کےمومن اورمسلمان بھائیو ! تم پر سلام ہو ان شاء اللہ ہم بھی تم سے آکر ملنے والے ہیں۔ تم ہم سے پہلے جاچکے اورہم تمہارے بعد آرہےہیں۔ ہم اللہ سے اپنے اور تمہارے لئے خیروعافیت کی دعا کرتےہیں۔‘‘

اس کے بعد مغفرت کی مزید دعائیں ہاتھ اٹھا کر بھی کرسکتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اکرمﷺ جنت البقیع (مدینہ کا قبرستان ) میں تشریف لے گئے۔ دیر تک کھڑے رہے اور تین مرتبہ ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص247

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ