السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نماز جنازہ میں قرآت اور دعائیں بلند آواز سے پڑھنا ثابت ہے؟
ایک مولوی صاحب نے کہا کہ جہری (اونچی آواز سے )پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ ﷺ صحابہ کرامؓ کو دین کی تمام باتیں وضاحت اور تفصیل سے سکھاتے تھے۔ ہر عمل اور اس کے طریقے کے بیان میں کوئی کمی باقی نہیں چھوڑتے تھے۔ اس طرح میت سے متعلق احکام و مسائل کو بھی آپ نے پوری وضاحت سے بیان فرمایا جن میں متعدد طویل اور مختصر دعائیں بھی شامل ہیں جو رسول اللہﷺ نے نمازجنازہ کے دوران پڑھیں ۔ آپ نے جو بلند آواز سےنماز جنازہ کے متعلق دریافت کیا ہے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تین احادیث کا ذکر نے حد مفید ہوگا۔ اور ان پر غور کرنے کے بعد آپ کو مسئلہ سمجھنے میں کافی آسانی رہےگی۔
’’عن عوف بن مالک قال سمعت النبیﷺ علی جنازه یقول اللهم اغفرله وارحمه و عافه واعف عنه واکرم نذله ووسع مدخله واغسله بماء و ثلج و برد و نقه من الخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس وابدله دارا خیر من داره و اهلا خیر من اهله و زوجا خیر من زوجه وقه فتنة القبر و عذاب النار قال عوف فتمنیت ان لو کنت انا المیت لدعاء رسول اللہﷺ لذالک المیت۔‘‘ (مختصر صحیح مسلم للالبانی رقم الحدیث ۴۷۷)
’’حضرت عوفؓ بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو میں نے ایک میت پر جنازہ کے دوران یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا۔ ‘‘ اے اللہ ! بخش دے۔ اس پر رحم فرما۔ اسے معاف کردے اور اسے عافیت سے۔ اس کی مہمان نوازی فرما اور اسے وسیع ٹھکانہ عطا فرما اور اسے گناہوں سے پانی کی مختلف شکلو ں (ماء ’ثلج ’برد وغیرہ) سے دھو دے اور اس کے گناہوں کو اس طرح صاف کردے جس طرح سفید کپڑے کو میل سے صاف کیا جاتاہے۔اسے آخرت میں ایسا گھر نصیب فرماجو دنیا کے گھر سے بہتر ہو۔ا سے دنیا سے بہتر اہل خانہ عطافرما اور دنیا سے بہتر جوڑا عطاکر۔ اسے قبر اور جہنم کے عذاب سے بچا حضرت عوف کہتےہیں کہ کہ یہ پیاری دعائیں سن کرمجھے رشک آیا کہ کاش آج میں اس کی میت کی جگہ ہوتا اورمجھ پر حضورﷺ یہ دعائیں پڑھتے۔‘‘ (مسلم و نسائی)
دوسری حدیث واثلہؓ بن اسقع کی ہے۔ فرماتےہیں
صلی بنا رسول اللهﷺ علی زحل من المسلمین فسمعته یقول اللهم ان فلان ابن فلاں فی ذمتک و جیل جوارک فقه فتنة القبر و عذاب النار وانت اهل الوقاء والحمد اللهم اغفرله وارحمه انک انت الغفور الرحیم۔ (ابو داؤد مترجم کتا ب الجنائز ص ۶۱۷ رقم الحدیث ۱۴۲۶)
’’حضرت واثلہؓ فرماتےہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمارے ساتھ مسلمانوں میں سے ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے آپ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا آپ فرمارہے تھے: اے اللہ! اب فلاں ولد فلاں تیرے سپر د اور تیرے پڑوس میں آچکا ہے۔ پس اسے قبر اور آگ کے عذاب سےمحفوظ رکھ اور تو وعدے پورے کرنے والا اور تعریف کے لائق ہے۔ اے اللہ تو اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما۔ بے شک تو ہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
تیسری حدیث ابن عباسؓ کی ہے
’’انه صلی علی جنازة فقراء بفاتحة الکتاب وقال لتعلمو انه من السنة‘‘ ( رواه البخاري ) ایک اور روایت میں یہ لفظ ہیں: "فقراء بفاتحة الکتاب و سورة و جهر فلما فرغ قال سنة و حق۔"(فتح الباري ج ۳ کتاب الجنائز باب قراءۃ الفاتحة ص ۵۶۳ رقم الحدیث ۱۳۳۵)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک جنازہ پڑھا تو سورہ فاتحہ پڑھی اور فرمایا تمہیں علم ہونا چاہئے کہ یہ سنت ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ ایک اور سورت بلند آوازسے پڑھی ۔ پس جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ سنت اور درست ہے۔ (بخاری‘ابو داؤد‘ترمذی‘ نسائی)
اب انتینوں احادیث پر غور کیجئے ۔ پہلی حدیث مین صحابی عوف بن مالکؓ نے فرمایا کہ میں نے رسو اللہ کو یہ دعائیں پڑھتے ہوئے سنا کس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے بلند آواز سے یہ دعا ئیں پڑھی تھیں کیونکہ اگر آپﷺ آہستہ پڑھتے تو پھر یہ نہ کہا جاتا کہ مین نے آپ کو سنا بلکہ مسلم شریف کی روایت میں اس لفظ سے اور زیادہ وضاحت ہوجاتی ہے کہ: ’’فحفظتھا من دعائه‘‘ (مسلم کتاب الجنائز باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ (۸۵۔۹۶۳)
(پس میں نے حضورﷺ سے سن کر یہ دعا یاد بھی کرلی) اب صاف ظاہر ہے کہ آپﷺ نے با آواز بلند دعا کی تھی کہ صحابی نے نہ صرف سنی بلکہ سن کر یاد بھی کرلی۔ اور پھر آخر میں عوف بن مالکؓ نے جو یہ کہا کہ کاش آج میری میت حضورﷺ کے سامنے ہوتی اور اس پر یہ دعائیں پڑھی جاتیں۔ اس کے بعد تو کسی شک و شبے کی گنجائش ہی باقی نہین رہ جاتی کہ آپ نے بلند آواز سے دعا پڑحی تھی۔ دوسری حدیث میں بھی حضرت واثؒہ نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ مٰن نے جب حضورﷺ کے پیچھے ایک جنازہ پڑھا تو میں نے آپ ﷺ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے خود سنا ۔ اس سے بھی جہری قرأت ثابت ہوتی ہے۔
تیسری حدیث حضر ت عبداللہ بن عباسؓ کی ہے جس میں انہوں نے ایک جنازے پر بلند آواز سے سورت فاتحہ اور ایک سورت پڑھی اور بعد میں اس کی وضاحت فرمائی کہ یہ سنت اور صحیح ہے۔ ابن عباسؓ کی اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:۔
ایک یہ کہ جنازے میں سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے اور دوسرے اس کا اونچی آواز سے پڑھنا بھی ثابت ہوا۔ یہ ہیں وہ ثبوت جو بلند آواز سے جنازہ پڑھنے کے بارے میں دیئےجاسکتےہیں۔
اب رہا کسی مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ اس بارے میں کوئی حدیث نہیں ہے تو یہ ان کا علم حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔ ورنہ یہ حدیثیں صحاح ستہ کہ کتابوں میں مختلف الفاظ سے روایت کی گئی ہیں۔ جن کتابوں کے حوالے اوپر دیئے گئے ہیں ان میں یہ حدیثیں مولوی صاحب کو مل سکتی ہیں۔
ضروری وضاحت: یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
اول: یہ کہ ان احادیث کے بارے میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قرأت و دعا بلمد آواز سے صحابہ کرامؓ کی تعلیم اور ان کو سکھلانے کے لئے پڑھی تھی اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ صحابہ کرامؓ کو یہ دعائیں نہیں آتی تھیں اور حضورﷺ ان کو تعلیم دینے کے لئے بلند آواز سے پڑھتے تھے اور دوسری یہ کہ صرف جنازے میں ایک دو بار سن کر ہر آدمی یاد بھی نہیں کرسکتا۔
بعض صحابہؓ نے جیسے حضرت عوف کا ذکر آیا ہے یاد بھی کیں مگر ہر شخص کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ جنازےکے دوران کوئی چیز حفظ بھی کرلے بلکہ صحابہ کرامؓ دوسرے فارغ اوقات میں دین کی باتیں حضور سے سیکھتے اور یاد کرتے تھے اور اگر بالفرض یہ علت تسلیم بھی کرلی جائے کہ حضورﷺ صحابہ کرامؓ کو سکھلانے کےلئے اونچی آواز سے پڑھتے تھے تو پھر آج یہ ضرورت کئی گنا زیادہ ہے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت کو نہ صرف یہ کہ جنازے کی دعائیں نہیں آتیں بلکہ وہ جنازہ کے طریقے سے بھی واقف نہیں ہوتے ۔ایسی صورت میں تو اونچی آواز سے پڑھنا اور بھی زیادہ ضوری ہے اور مفید ہے تا کہ جن لوگوں کو نہیں آتا ہو سیکھ بھی لیں اور خاموش رہنے کی بجائے آمین کہہ کرامام کے ساتھ دعا میں شریک بھی ہوجائیں۔
دوم : یہ کہ کوئی جھگڑے یا بڑے اختلاف کا مسئلہ نہیں کہ مولوی صاحب حدیث سے ثبوت پیش کرنے کا چیلنج دے دیں (جبکہ احادیث معجود یہں اور ان کے علم میں نہیں)بلکہ ہمارے نزدیک دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ا ٓہستہ بھی اور بلند آواز سے بھی کیونکہ حضورﷺ سے سری(آہستہ )پڑھنے کی روایات بھی نقل کی گئی ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں ہم اونچی آواز سے پڑھنا اس لئے بہتر سمجھتے ہیں کہ اکثر لوگوں کو جنازے کی دعا ئیں نہیں آتیں اور اونچا پڑھنے سے نہ صرف یہ کہ وہ دعاؤں میں شریک ہوجاتے ہیں بلکہ اس طریقے سے دعائیں یاد کرنے کا ذوق بھی ان میں پیدا ہوسکتا ہے۔ بہر حال دونوں طرح جائز ہے اس لئے اس مسئلے پر لڑائی جھگڑے یا اصرار کی چنداں ضرورت نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب