السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مغربی جرمنی سے ایک صاحب لکھتے ہیں بعض لوگ رمضان المبارک کے آخری جمعہ (جمعۃ الوداع) کے دن قضا عمری کی نماز پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سےعمر بھر کی وہ نمازیں جو نہیں پڑھی گئیں ان کی قضا ہوگئی۔ اس کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ کچھ لوگ اس دن ظہر وعصر کے درمیان ۱۲ رکعت پڑھتے ہیں اور بعض اس میں سورہ فاتحہ’ آیت الکرسی اور سورہ اخلاص کا اضافہ کرتے ہیں۔ کیا اس کی کوئی اصل ہے’یا حدیث سے قضا عمری کی نماز ثابت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قضا عمری کی نماز یا اس کا وہ ثواب یا فضیلت جو بیان کی جاتی ہے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ جس عمل کے بارے میں ایک شخص کو یقینی علم ہی نہیں کہ اس کی کتنی نمازیں رہ گئی ہیں ایک تو ان کی قضا یوں اندازے سے دینا خود محل نظر ہے ۔ پھر عمر بھر کی نمازوں کا بدل ایک دن کی کچھ رکعات آخر کیسے بن سکتی ہیں۔ آدمی کی گزری ہوئی زندگی کے گناہوں یا بداعمالیوں کا اصل کفارہ توبہ ہے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ توبہ پہلے سب گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور سچی توبہ انسان کو گناہوں سے پاک کردیتی ہے’ا س لئے قضاعمری تکلف محض ہے۔ بعض لوگ کچھ روایا ت بھی پیش کرتے ہیں جو بالکل موضوع اور باطل ہیں ۔ مشہور حنفی عالم ملا علی قاری نے اس روایت کو بالکل موضوع اور قطعی باطل قرار دیا ہے۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی نے بعض دوسرے ائمہ کے اقوال بھی پیش کئے ہیں جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ قضا عمری کےبارے میں کوئی چیز رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب