السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیوٹن سے جنا ب مقبول کاظمی نے دریافت کیا ہے
(۱)کیا قضا عمری کا ادا کرنا ضروری ہے؟
(۲)کیا اس قسم کا گناہ توبہ سے دھویا جاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز دین کا اہم ستون ہے اور بنیادی رکن ہے جان بوجھ کر اسے ترک کردینا بہت بڑا گناہ ہے اور جرم ہے اور جمہور علماء کے نزدیک نماز چھوڑ نے کا جرم قتل ’زنا ’ چوری اور شراب نوشی سے بھی سنگین ہے۔ا س کے سنگین جرم ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں لیکن بے نماز کے کافر ہونے میں اختلاف ہے۔کافر ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے قطع نظر ائمہ دین نے اس کے لئے سخت سزائیں مقرر کی ہیں جیسے قتل کردینا یا عمر بھر کے لئے قید کردینا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرنا۔ ائمہ دین کی ان آراء سے اس جرم کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ عمر کے کسی حصے کی جو نمازیں نہیں پڑھیں ان کی قضا دینا ضروری ہے یا توبہ ہی کافی ہے تو اس مسئلے کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ کسی آدمی نے کچھ نمازیں جان بوجھ کر نہیں پڑھیں مگر ان نمازوں کے بارے میں اسے علم ہے کہ کتنی اور کون کون سی نمازیں ہیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس نے عمر کے بڑے حصے میں نمازیں ادا نہیں کی اور اسے کچھ معلوم نہیں کہ اس کی کتنی اور کون کون سی نمازیں فوت ہوئی ہیں۔ پہلی صورت میں علماء سلف و خلف کی دو آراء ہمارے سامنے آتی ہیں۔
۱۔جس شخص نے جان بوجھ کر کوئی نماز چھوڑی ہے اس پر قضا واجب ہے۔ ان کی دلیل نبی کریمﷺ کی یہ حدیث ہے جس میں آپ نے سونے کی وجہ سے یا بھول کر نماز ترک کرنے والے کو قضا کا حکم دیا ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر بھول کر یا نیند کی وجہ سے چھوڑی ہوئی نماز کی قضا ضروری ہے تو اس کی اور زیادہ ضروری ہے۔ انہوں نے دوسری دلیل میں وہ حدیث بھی پیش کی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے جنگ خندق کے دن نماز عصر مغرب کے بعد پڑھی۔ حالانکہ نہ تو یہ تاخیر نیند کی وجہ سے تھی اور نہ بھول کی وجہ سے۔ اس لئے جس آدمی نے جان بوجھ کر کوئی نماز ترک کی ہے اس کے لئے بھی قضا ضروری ہو گی۔
۲۔ جان بوجھ کر چھوڑنے والے کےلئے توبہ ضروری ہے اور قضا ضروری نہیں کیوں کی جس وقت پر نماز فرض تھی وہ گزرگیا۔ اب دوسرے وقت میں وہ فرض ادا نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کےلئے یہ لازمی ہے کہ آئندہ نمازوں کی حفاظت کرے اور نوافل کثرت سے پڑھے۔ جہاں تک سونے والے اور بھولنے والے کےلئے قضا ضروری قرار دی گئی ہے اس بارےمیں اس حضرات کا خیال یہ ہے کہ ان کے بارے میں نص آچکی ہے اور بعد کا وقت ان کے لئے جو مقرر کیا گیا ہے وہ شرعی طور پر ان نمازوں کا وقت ہے جو نیند یا بھول سے رہ گئی ہیں تو اس لحاظ سے یہ نمازیں وقت کے اندر ہی ہیں اور جان بوجھ کر چھوڑنے والے کے لئے ان احادیث کو دلیل نہیں بنا یا جاسکتا۔
ان کے ہاں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ قرآن میں جان بوجھ کر نماز نہ پڑھنے والے کے لئے سخت وعید آئی ہے ۔ اگر قضا سے اس کا ازالہ ہو سکتا ہے تو اس کا حل قضا ہوتی اس قدر سخت ڈانٹ اور سزا کی ضرورت نہ تھی۔ چنانچہ ارشاد قرآنی ہے کہ:
﴿فَوَيلٌ لِلمُصَلّينَ ﴿٤﴾ الَّذينَ هُم عَن صَلاتِهِم ساهونَ ﴿٥﴾... سورةالماعون
’’یعنی ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔‘‘
یہاں ’غفلت ’سے مراد بعض مفسرین نےجان بوجھ کر نماز ترک کرنا یا موخر کر لیا ہے۔
دوسری آیت سورہ مریم کی ہے کہ:
﴿فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ أَضاعُوا الصَّلوٰةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ ۖ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ﴿٥٩﴾...سورة مريم
’’ان کے بعد ان کے ایسے جانشین پیدا ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات کی پیروی کی۔ یہ لوگ عنقریب تباہی سے دوچار ہوں گے۔‘‘
اور خود نبی کریمﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ:
من فائته صلوة العصر فکانما و تراهله و ماله (ابی داؤد جلد اول کتاب الصلاة باب من ادرک رکعة من صلاة العصر ص ۶۵)
’’کہ جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی اس کا اہل اور مال سب تباہ ہوگئے۔‘‘
تو ان دلائل کی بنا پر ان حضرات کے ہاں توبہ ضروری ہے قضا کی حاجت نہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص کی عمر کے بڑے حصے کی نمازیں رہ گئیں۔ مثلاً ۳۰’۴۰ سال یا اس سےکم وبیش عرصہ اس نے جان بوجھ کر نماز نہیں پڑھی اور اسے متروکہ نمازوں کی صحیح تعداد یا رکعات کا بھی علم نہیں۔ اس صورت میں بھی اہل علم کی دو آراء ہمارے سامنے آتی ہیں
۱۔ایک یہ کہ قضا ضروری ہے اور توبہ تب ہی صحیح ہوگی جب قضا دے گا او ر اگر نمازوں کا علم نہیں تو اندازے سےجتنی نمازیں روزانہ پڑھ سکے پڑھ لیا کرے یعنی اپنی طرف سے اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
۲۔ دوسری یہ کہ توبہ ضروری اور کافی ہے اور ایسی صورت میں قضا ممکن ہی نہیں کیوں کہ اسے نمازوں کا علم نہیں کہ کتنی تعداد میں چھوڑی ہیں اور پھر نماز اپنے اصل وقت سےرہ گئی ہے اب اس کی قضا کےلئے کوئی نص صریح نہیں ہے۔
حاصل کلام: تمام دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے اور اہل علم کے تجزیے کی روشنی میں صحیح اور صواب رائے ہم ذیل میں تفصیل سےبیان کرتےہیں
(۱)اس امر میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ نائم (سونے والے) ناسی (بھولنے والے)مریض اور مسافر کےلئے صحیح احادیث کے ذریعے نماز قضا کرنے یا دوسرے وقت میں پڑھنے کی اجازے ہے ۔ اس لئے اس سلسلے میں سب کا اتفاق ہے۔
(۲)اس امر میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑی’ اس کے لئے توبہ ضروری ہے کیوں کہ معصیت کا ازالہ توبہ ہی ہوسکتا ہے اس لئے توبہ ہر حال میں ضروری ہے۔
(۳)اختلاف اس شکل میں ہے جب جان بوجھ کر نمازیں چھوڑدیں لیک اسے نمازوں کی تعداد اور اوقات کا علم ہے اور ان کی قضا کرنا اس کے لئے ممکن بھی ہے تو ایسی صورت میں صحیح رائے یہی معلوم ہوتی ہے کہ اسے توبہ کے ساتھ ساتھ ان نمازوں کی قضا بھی دینی چاہئے۔ اگرچہ اس سلسلے میں کوئی واضح نص تو نہیں ہے لیکن قرآن کی آیت کہ
﴿ وَأَقِمِ الصَّلوٰةَ لِذِكرى ﴿١٤﴾...سورة طه
’’ کہ نماز میری یاد کےلئے قائم کرو۔‘‘
اور حدیث
’’من نسی الصلوة فلیصلهااذا ذکرها‘‘ (ابن ماجه للالبانی ابواب مواقیت الاصلاة باب من نام عن الصلاة او نسیها ج ۱ ص ۱۲۵)
’’کہ جو نماز بھول گیا وہ جب یاد آئے تو اسے ضرور پڑھے‘‘
اس آیت اور حدیث سے کسی حد تک استدلال کی گنجائش موجود ہے اور پھر احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو نماز چھوڑی ہو (بھول کر یا جان بوجھ کر) جب اس کا احساس ہو یا یاد آئی تو اسے پڑھ لینا چاہئے’خاص طور پر ایسی صورت میں جب اس کے لئے ممکن بھی ہے۔ اس لئے نمازی کی جب کوئی معلوم نماز رہ جائے تو اسے قضا بہرحال دینی چاہئے۔
(۴)زیادہ مشکل یہ ہے کہ جب عمر کے بڑے حصے کی نمازیں نہیں پڑھیں اور جب اسے ہوش یا اللہ نے ہدایت دی اور احساس پیدا ہوا تو اسے تعداد یا رکعات کا بھی صحیح پتہ نہیں تو اس کےلئے اب کیا صورت ہے؟ قرآن و حدیث اور ائمہ دین و اہل علم کی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی دو شکلیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
اول: ایک شخص جو نماز نہیں پڑھتا وہ اس کا تارک ہی نہیں منکر بھی ہے یعنی نماز کی فرضیت کا سرے سے قائل ہی نہیں اور نہ ہی اسے تسلیم کرتا ہے ایسا شخص تو بالا تفاق کافر ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ لہٰذا اس شخص کو اگر اللہ نے ہدایت دی تو یہ گویا کہ از سرنو اسلام میں داخل ہورہا ہے اور اس کےلئے کوئی قضا نہیں جس طرح کہ جب کوئی کافر مسلمان ہوتا ہے تو اس کےلئے پہلے ترک کئے ہوئے فرائض کی قضا نہیں ہوتی لہٰذا ایسی صورت میں صرف توبہ ہی کافی ہوگی۔
دوم: دوسری صورت یہ ہے کہ وہ شخص نماز کا کھلے عام انکار تو نہیں کرتا تھا لیکن اس نے لمبا عرصہ نماز پڑھی بھی نہیں اور ایک لحاظ سے ترک نماز جیسی معصیت پر اصرار اور اسمترار کرتا رہا تو ایسا شخص اب راہ راست پر آکر نمازیں شروع کرناچاہتاہے اور اسے سابقہ نمازوں کےبارے میں تشویش ہے کہ ان کی قضا کیسے ہوگی اور میرے خیال میں سوال میں بھی اس کےبارے میں دریافت کیا گیا ہے۔ اس صورت میں درج ذیل دلائل کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخص پر قضا نہیں ہوگی۔ یہ خالص اور سچی توبہ کرے گا ہاں نوافل کثرت سے پڑھ کر اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرسکتا ہے لیکن اصل معافی کا ذریعہ توبہ ہی ہے۔
(۱)قرآن وحدیث میں ایسی کوئی واضح دلیل یا نص نہیں ہے جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ یہ شخص۔۔۔جو اتنا طویل عرصہ جان بوجھ کر تارک صلوۃ رہا۔۔۔ وہ ان کی قضا دے گا۔ احادیث میں سونے کی وجہ سے جس کی نماز رہ گئی یا کسی وجہ سے بھول گیا’اسی طرح مریض اورمسافر کے بار ے میں تو نماز قضا کرنے یا جمع کرنے کا ذکر ہے لیکن مذکورہ شکل کےبارے میں کوئی واضح اثر نہیں اس لئے کسی نص کےبغیر ہم اس کےلئے قضا کا حکم نہیں دے سکتے۔
(۲)اس کے علاوہ ترک نماز کو کفر سے تعبیر کیاگیا اور اس میں کوئی صراحت نہیں کہ یہ ترک انکار کی وجہ سے ہو یا سستی کاہلی اور بےپروائی کہ وجہ سے اور ائمہ مجتہدین کی ایک قابل ذکر تعداد نے اس سے کفر مراد لے کر بے نماز کو کافر قرار دیا ہے او ر وہ ان آیات و احادیث سے استدلال کرتےہیں
﴿ما سَلَكَكُم فى سَقَرَ ﴿٤٢﴾... سورةالمدثر
’’ ان سے پوچھا جائے گا کہ تم جہنم رسید کیوں ہوئے تو جواب میں کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔‘‘
﴿فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ أَضاعُوا الصَّلوٰةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ ۖ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ﴿٥٩﴾... سورة مريم
’’ان کے بعد ان کے برے جانشین آئے تو انہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات کی پیروی کی۔ پس عنقریب یہ لوگ ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔‘‘
تیسری آیت ہے:
﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ فَإِخوٰنُكُم فِى الدّينِ... ﴿١١﴾... سورةالتوبة
’’اگر وہ توبہ کرکے نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘
یعنی اگر نماز قائم نہیں کرتے تو دین سے خارج اور تمہارے دینی بھائی نہیں۔ چوتھی آیت بھی سورہ توبہ کی ہے جس کے آخر میں ہے
﴿فَخَلّوا سَبيلَهُم... ﴿٥﴾... سورةالتوبة
’’یعنی اگر وہ نماز قائم کریں تو ان سے تعرض نہ کرو۔‘‘
اس معنی کی اور بھی بہت سی آیات پیش کی جاسکتی ہیں ۔ احادیث جو پیش کی جاتی ہیں ان میں صحیح مسلم کی یہ حدیث خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا
’’بین الرجل و بین الکفر ترک الصلوة‘‘(سنن نسائي مترجم کتاب الصلاة باب الحکم فی تارک الصلاة ص ۱۸۹ رقم الحدیث ۴۶۷ مسلم للالبانی جلد ۱ کتاب الصلاة باب ترک الصلاة کفر ص ۶۲ رقم الحدیث ۲۰۴)
’’آدمی اور کفر کےدرمیان نماز چھوڑنے کا فاصلہ ہے۔‘‘ (مسلم ’ترمذی)
دوسری حدیث میں ہے:
‘‘ العهد الذی بیننا و بینهم الصلوة فمن ترکها فقد کفر’’ (ترمذي للالباني ابواب اقامة الصلاة ج ۱ باب ما جاء فی من ترک الصلاة ص ۱۹۴ رقم الحدیث ۱۰۶۵ ابن حبان ۱۴۵۴)
’’ ہمارے اور ان کے درمیان نماز ہی عہد ہے ۔ پس جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے کفر کیا۔‘‘
اسی طرح حضرت عبادہ بن صامت ؓ سےروایت ہے کہ
’’اوصانا رسول اللہ ﷺ فقال لا تشرکو ا بالله شیئا ولا تترکوا الصلوة عمدا فمن ترکها عمدا متعمدا فقد خرج من الملة‘‘ (مجمع الذوائد ۲۱۹/۴ تعظیم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروری ۸۸۹/۲ شرح اصول الاعتقاد للالکائی ۸۲۲/۴ ’ ۸۲۳ تاریخ کبیر للبخاری ۷۵/۴۔)
’’ہمیں رسول اللہﷺنے وصیت کی اور فرمایا اللہ کےساتھ ذرا بھی شرک نہ کرو اور نماز نہ چھوڑنا۔ اس لئے کہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی وہ اللہ کے ذمہ سےنکل گیا۔‘‘
یہ اور اس طرح کی متعدد احادیث اس معنی اور مفہوم میں کتب احادیث میں موجود ہیں۔ جن لوگوں نے مذکورہ آیات اور احادیث کےظاہر کو سامنے رکھا ہے انہوں نے اس شخص کو کافر قرار دیا ہے جو ہمیشہ اصرار کے ساتھ نماز کا تارک رہا ۔ اب یہ شخص جب نماز شروع کرے گا تو گویا کہ نئےسرے سےمسلمان ہوا ہے۔ اس لئے سچی توبہ ہی اس کےلئے ضروری ہوگی۔ قضا اس پر نہیں ہوگی۔
(۳)مگر دوسری طرف اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے ایسے شخص کو دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا بلکہ اسے نافرمان اور گناہ گار قرار دیا ہے اور جو کفر کے الفاظ آئے ہیں ان سےمراد انہوں نے کفر عملی لیا ہے نہ کہ کفر اعتقادی ۔ یعنی تارک الصلوۃ عملاً کافر ہے عقیدتاً نہیں۔ ہمارے نزدیک کفر اعتقادی ہو یا عملی۔ ان دونوں کا ازالہ توبہ کے بغیر نہیں ہوسکتا اور جب نبی کریمﷺ نے نے نماز کےبارے میں کفر کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس کفر سےتائب ہوکر ہی وہ صحیح مومن بن سکتا ہے اس لئے اس بے نماز کے لئے توبہ ضروری ہے ۔ یہاں بھی قضا نہیں ہوگی کیوں کہ وہ بھی ایک لحاظ سے کفر سے ایمان کی طرف آرہا ہے۔
(۴)جس شخص کو نمازوں کی تعداد ہی معلوم نہیں جن کی اس نے قضا دینا ہے نہ اسے یہ یاد ہے کہ کب کون سی نماز ترک کی تھی کیوں کہ بیچ میں کبھی کبھار پڑھ بھی لیتا ہوگا تو اب وہ کس نماز کی آخر کیا نیت کرے گا اور قضا کی شکل کیا ہوگی۔یوں ہی اندازے سے تو نماز پڑھنے کا کوئی قصد نہیں۔ جب اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کون سی نماز کب اور کیسے پڑھ رہا ہے اور کس نماز کی قضا دے رہا ہے۔ یہاں ایک بڑا دلچسپ نکتہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ساری عمر کی نمازیں قضا کرنا ضروری ہیں ان سے جب یہ کہاجاتا ہے کہ جس آدمی نے ۳۰ سال کی نمازوں کی قضا شروع کی اور ابھی ایک سال کی قضا بھی پوری نہیں کی کہ وہ فوت ہوجاتا ہے۔ اب ان نمازوں کا کیا بنے گا تو وہ کہتے ہیں اگر توبہ کی تو اللہ معاف کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی قضا ضروری نہیں تھی ورنہ جو اب بھی رہ گئی ہیں ان کی سزا ضروری تھی۔ پھر جو یہ کہاجاتا ہےکہ جو نماز جب یاد آئے تو اس کا قرآن اور حدیث میں پڑھنے کا حکم ہے تو ہم کہتے ہیں جس کی عمر بھر کی نمازیں رہ گئی ہیں اسے تو صحیح تعداد بھی یاد نہیں لہٰذا اس پر قضا نہیں ہوگی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس آدمی نے جان بوجھ کر لمبی مدت تک نماز نہیں پڑھی اسے تعداد یا د نہیں متعین نیت وہ کر نہیں سکتا۔ پھر ساری نمازوں کی قضا نہ ممکن ہے اور نہ یقینی اور پھر رسول اللہﷺ نے اس کے لئے کفر کا لفظ بھی فرمایا ہو تو ایسے شخص کےلئےتوبہ ہی اصل حل ہے قرآن وحدیث میں اس کے لئے قضا کا کوئی ثبوت نہیں ہے ہاں البتہ اسے نوافل کثرت سے پڑھنے چاہئیں تا کہ اجروثواب کی کمی کو پورا کرسکے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب