السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مارڈن (سرے )سے محمد سعود الحق حقی تحریر کرتے ہیں:
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح روزہ نہ رکھنے کی صورت میں کسی محتاج کو کھانا کھلانا کر کفارہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ کیا اسی طرح اگر فرض نماز ادا نہ کرسکے تو کفارہ سے فرض نماز کی ادائیگی ہوسکتی ہے؟
مزید برآں بوجہ علالت نماز وقت پر ادا نہ کرسکا اور نہ ہی قضا کی ادائیگی ہو سکی قبل از موت۔ ایسی صورت میں اگر نماز کا کفارہ ادا کیا جا سکتا ہے تو کیا پس ماندگان کے ادا کرنے سے فرض کی ادائیگی مرحوم سے ہوسکتی ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دریافت طلب مسئلہ سے قبل روزوں کے کفارہ سےمتعلق وضاحت کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ روزو نہ رکھنے کی صورت میں کفارہ کا جو حکم ہے وہ خاص حالات پر ہے نہ کہ یہ عمومی علم ہے کہ جو روزہ نہ رکھنا چاہے وہ کفارہ ادا کردے۔ بلکہ اگر کوئی اس قدر بیمار یا کمزور ہے کہ اس کی صحت یابی اور تندرستی کی کوئی امید نہیں تو پھر کفارہ ادا کیاجاسکتا ہے ورنہ اگر کوئی مثلا رمضان میں بیمار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ روزے چھوٹ جاتے ہیں تو بعد میں اسے ان روزوں کی قضا کرنا پڑے گی۔
اس کے بعد نماز کے کفارہ سےمتعلق جو مسئلہ دریافت کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرض نماز کا کوئی کفارہ نہیں بلکہ اگر نیند یا بھول کی وجہ سے کوئی نماز چھوٹ جائے تو جب بھی یاد آجائے تو فوراً اس کی قضا کر لینی چاہئے اور اگر کوئی جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے یا اتنی زیادہ نمازیں چھوٹ گئی ہوں کہ ان کا حساب اور گنتی مشکل ہے تو ان کا کفارہ صرف یہ ہے کہ وہ توبہ استغفار اور کثر ت سے نوافل سے کام لے۔
باقی اس بیمار کی نمازوں کا کیا ہوگا جو ادا کئے بغیر وفات پاگیاہو تو اس سلسلے میں یہ وضاحت ہے کہ نماز اور روزہ (جو مرحوم کی جانب سے بعض خاص حالات میں رکھا جاسکتا ہے ) دونوں کے درمیان بنیادی طور پر بہت فرق ہے کہ روزے میں صبح سے شام تک کھانے پینے سے مکمل پرہیز کیا جاتا ہے گویا روزہ ایک طویل اور مسلسل کام ہے اور ا س سلسلے میں نصوص بھی وارد ہوئی ہیں جب کہ نماز کے لئے کوئی نص نہیں۔اسی طرح نماز کے اداکرنے میں خصوصاً بیمار کے لئے کافی سہولتیں رکھی گئی ہیں کہ اگر کوئی کھڑا ہو کر نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھے اور اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹے ہوئے اشاروں کے ذریعے نماز ادا کرلے۔ اگر وضو نہ کرسکتا ہو تو تیمم کافی ہے۔
ان مذکورہ صورتوں میں آدمی ہوش و حواس کے قائم رہنے تک کسی نہ کسی پر عمل کرسکتا ہے۔ ہاں اگر وہ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ اپنے ہو ش و حواس پربھی قابو نہیں جیسے مسلسل بے ہوشی یا ذہنی فتور وغیرہ تو اس درمیان میں جو نمازیں گزریں گی وہ اس کے لئےمعاف ہیں۔ جیسے حدیث میں آیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ پر ایک دفعہ نے ہوشی طاری ہوگئی جس کے نتیجے میں نماز بھی چھوٹ گئی اور جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے وہ نماز نہیں دہرائی۔ (مسند عبدالرزاق)
آپ نے جو بات دریافت کی ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اگر مرحوم کی حالت اس قدر بگڑی ہوئی تھی کہ انہیں کسی چیز کا ہوش و حواس ہی نہیں تھا تو اس درمیان جو نمازیں گزریں وہ ان پر معاف ہیں ورنہ اگر یوں ہی چھوٹ گئی ہوں تو ان کا کفارہ صرف یہی ہے کہ ان کے لئے استغفار اور دعا کی جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب