سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) جماعت میں مل کر کھڑے ہونا ضروری ہے؟

  • 13847
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 3589

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کارڈف سے علی اکبر تحریر کرتےہیں ۔ کچھ عرب بھائیوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ نماز کی صف میں جب کھڑے ہوتے ہیں تو پاؤں بہت ملا کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ کچھ مسجدوں میں دیکھا ہے کہ لوگ فاصلے پر بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ صحیح مسئلہ کیا ہے اور جماعت کے اندر صف بندی کے وقت کیا پاؤں کے ساتھ پاؤں ملانا ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز دین اسلام کا ایک اہم ستون ہے جہاں اس کی ادا ضروری ہے وہاں صحیح طریقے سے ادا کرنا اور زیادہ اہم ہے۔ ایک شخص اگر نما ز کے لئے وضو کرتا ہے وقت بھی دیتا ہے اور دوسرے تکلفات بھی کرتا ہے لیکن نماز حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا نہیں کرتا تو ایسے شخص کی ساری محنت رائیگاں جاسکتی ہے ۔ کیونکہ نماز وہی قبول ہوگی جو حضور ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا ہوگی۔

آپ کا ارشاد ہے:

’’صلوا کما رایتمونی اصلی‘‘ (فتح الباري ج ۲ کتاب الاذان المسافر اذاکانوا جماعة و کذالک بعرفةو جمع رقح الحدیث ۶۳۱)

’’ کہ نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘

ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’ارجع فصل انک لم تصل‘‘ (فتح الباري  ج۲  کتاب الاذان باب امر النبي ﷺ الذی لا یتم رکوعه بالا عادة رقم الحدیث ۷۹۳)

’’واپس جا کر نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘

 اس نے واپس جا کر دوبارہ نماز پڑھی ’جب دوبارہ خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے پھر نماز پڑھنے کے لئے فرمایا۔

تیسری بار جب وہ نماز پڑھ کر آیا تو کہنے لگا: اللہ کے رسول مجھے تو یہی طریقہ آتا ہے ’ آپ میری راہ نمائی فرمائیں۔

تو پھر آپﷺ نے اسے آرام سے رکوع و سجود کرنے اور تمام ارکان و سنن نماز کو اطمینان سے ادا کرنے کا طریقہ بتایا کیونکہ وہ آدمی تیز تیز نماز پڑھ رہا تھا۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ جو آدمی نماز تسلی سے ادا نہیں کرتا اور رکوع‘ قیام‘ سجدہ اور تشہد میں سنت نبویﷺ کی پابندی نہیں کرتا اور تیز تیز ٹکریں مار کر چلا جاتا ہے تو نماز اس کے لئے بد دعا کرتی ہے اور کہتی ہے۔

’’ضیعک اللہ کما ضیعتني‘‘ (طبرانی اوسط (۳۱۱۸) ۸۶/۴ مجمع الزوائد ۳۰۷/۱ ترغیب و ترھیب ۲۵۷/۱)

’’جس طرح تونے مجھے خراب کی اہے اللہ تیرا ستیاناس کردے۔‘‘

صف کے اندر کھڑا ہونا اورجماعت کی صورت میں صفیں برابر اور سیدھی کھڑی کرنا ان اہم کاموں میں سے ہے جن میں سستی نماز کے اجروثواب کو ضائع کرسکتی ہے۔

صف بندی میں مل کر کھڑے ہونا اور صفوں کو برابر کرنے کے سلسلے میں درج ذیل احادیث خاص طور پر قابل ذکر ہیں

۱۔عن انس قال قال رسول اللہ ﷺ سووا صفوفکم فان تسویةالصف من تمام الصلوة (فتح الباري ج ۲ کتاب الاذان باب اقامة الصف من تمام الصلاة ص ۴۴۴ رقم الحدیث۷۲۳)(صحیح بخاری)

’’حضرت انسؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صفیں سیدھی اور برابر کھڑی کیا کرو اس لئے کہ صفوں کادرست کرنا نماز کومکمل کرتا ہے۔‘‘

۲۔عن ابی امام قال قال رسول اللہ ﷺ سووا صفوفکم و حاذوا بین مناکیکم ولینوا فی ایدی اخوانکم و سدوا الخلال فان الشیطان یدخل فیما بینکم منزلةالحذف (مسند امام احمد ۲۶۲/۵) 

’’حضرت ابی امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صفیں سیدھی کیا کرو اور کندھے ایک دوسرے کے برابر رکھو اور اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ اور صفوں کے درمیان خالی جگہ پر کیا کرو کیونکہ شیطان ان جگہوں سے بھیڑ  کے بچے کی طرح تمہارے درمیان داخل ہوتا ہے۔‘‘

۳۔وعن جابر بن سمرة قال خرج علینا رسول اللہ ﷺ فقال الا تصفون کما تصف الملائکة عند ربها قال یتمون الصف الاول یتواصفون فی الصف (مسلم ۴۳۰’ابن ماجه ج ۱ باب اقامة الصفوف رقم الحدیث ۹۷۸)

’’حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس طرح صفیں کیوں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس بناتے ہیں وہ پہلے صف اول مکمل کرتے ہیں اور پھر بالکل ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘

۴۔ ایک اور روایت میں ہے کہ

ان النبی ﷺ رای رجلا یصلی خلف الصف فوقف حتی انصرف الرجل فقال استقبل صلاتک فلا صلوة لمنفرد خلف الصف (سنن ابن ماجه للالبانی ج ۱ باب اقامۃ الصلاۃ باب صلاۃ الرجل خلف الصف وحدہ رقم الحدیث ۹۸۹)

’’کہ نبی کریمﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو صف سے الگ اکیلے نماز پڑھ رہا ہے جب وہ فارغ ہوا تو آپﷺ نے فرمایا تم قبلہ رو ہوکر نماز پڑھو کیونکہ صف چھوڑ کر اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘

ان تمام احادیث سے نماز میں صفوں کی درستی ’مل کر کھڑے ہونے اور کندھوں سے کندھے ملا کر اور برابر کر کے کھڑے ہونے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ صفوں کو ٹیڑھا رکھنا دور دور کھڑے ہونا’ درمیان میں خالی جگہ چھوڑنے کے بارے میں جو وعید آئی ہے اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی نمازیں صحیح نہیں ہوں گی جن میں ان باتوں کی رعایت نہیں کی جاتی جن کا ذکر ان احادیث میں آیا ہے

بدقسمتی اور افسوس کا مقام ہے کہ آج کل اکثر مساجد میں صفوں کو برابر کرنے اور مل کر کھڑے ہونے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات جماعت میں نمازی ایک دوسر ے سے ہٹ کر کھڑے ہوتے ہیں کہ درمیان میں ایک آدمی کے کھڑا ہونے کی گنجائش ہوتی ہے یہ طریقہ شیطان  کو اپنے پاس آنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔

اس سلسلے میں علماء اور مسجد کے اماموں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ وہ ہرگز اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ صفوں کے ٹیڑھے پن سے کس قدر خسارہ اور نقصان ہے۔

حضور ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ:

’’جو لوگ نماز میں صفوں کو ایک دوسرے سے دور رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے درمیان بھی دوری ڈال دے گا‘‘

اور آج یہ کیفیت مسلمانوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔ مساجد کےائمہ کرام کے یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگ کو ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونے کی تلقین کریں اور اس وقت تک جماعت کھڑی نہ کریں جب تک انہیں اطمینان نہ ہوجائے کہ صفیں برابر اور سیدھی ہیں اور نمازی ایک دوسرے کے ساتھ مل کرکھڑے ہوئے ہیں اور درمیان میں خالی جگہ نہیں ہے۔

یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ کوئی اختلافی مسئلہ بھی نہیں ہے بلکہ ایک لحاظ سے متفق علیہ مسئلہ ہے کہ صفیں درست سیدھی اور برابر کھڑی کی جائیں۔ مگر کچھ جہلانے اسے بھی اختلافی مسئلہ بنالیا ہے اس لئے جب انہیں صفیں درست کرنے کے لئے کہاجاتا ہے تو بعض اوقات یہ جواب بھی دیا جاتا ہے کہ یہ تمہارا مسلک ہوگا ہمارے مولوی صاحب نے تو کبھی اس مسئلے میں ہمیں روکا ٹوکا نہیں اور نہ ہی صف بندی کے بارے میں کبھی اتنی اہمیت بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سنت نبویﷺ کے مطابق نماز پڑھنے کی توفیق بخشے آمین۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص188

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ