السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لیڈز سے محمدیسینٰ لکھتے ہیں (الف )سنت غیر موکدہ میں چار رکعت کی نیت باندھے تو جب دو رکعت پڑھ کر بیٹھے اس وقت التحیات کے بعد درود شریف اور دعا بھی پڑھے پھر بغیر سلام پھیرے اٹھ کھڑا ہو۔پھر تیسری رکعت پھر ثناء پڑھ کر تعوذ تسمیہ اور الحمد سے شروع کرے اور چاہے صرف التحیات پڑھ کر اٹھ کھڑا ہو اور تیسری رکعت پر تسمیہ تحمید سے شروع کرے اس مسئلے پر پوری وضاحت کے ساتھ جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیث میں جن غیر مؤکدہ سنتوں کا ذکر آیا ہے ان میں عصر سے پہلے چار رکعت ’مغرب سے پہلے دورکعت اور عشاء سے پہلے دو رکعت کا ذکر ہے۔
ابو داؤد کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(رحم اللہ امراء صلی قبل العصر اربعا) (سنن ابو داؤد مترجم جلد ۱ ابواب التطوع باب الصلاۃ قبل العصر ص ۵۱۸ رقم الحدیث ۱۲۵۷)
’’اس آدمی پر اللہ کی رحمت ہو جس نے عصر سے پہلے چار رکعت پڑھیں۔‘‘
بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے مروی ہے کہ بنی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
(صلوا قبل المغرب) (سنن ابي داؤد مترجم ج۱کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ قبل المغرب ص ۵۲۱ رقم الحدیث ۱۲۶۷)
’’مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔‘‘
ابن حبان کی روایت ہے کہ
’’ان النبی ﷺ صلی المغرب رکعتیں‘‘ (ابن حبان۔ موارد الظمان الی زوائد ابن حبان باب الصلاۃ قبل المغرب (۶۱۷)ما من صلاة مفروضة موارد الصمار باب الصلاۃ قبل الصلوات و بعدھا (۶۱۵)
’’کہ نبی ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھیں۔‘‘
عشاء کی دو رکعت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کی روایت سے استدلال کیاگیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے
’’بین کل اذانین صلوة‘‘(فتح الباري ج ۲ کتاب الاذان باب کم بین الاذان والاقامة رقم الحدیث ۶۲۴)
’’کہ دو اذانوں (یعنی اذان و تکبیر ) کے درمیان نماز ہے۔‘‘
اور ابن حبان میں عبداللہ بن زبیرؓ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ’’مامن صلوة فریضة الاوبین یدیها رکعتان‘‘ ’’کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعت ہیں۔‘‘
ان دو احادیث سے مذکورہ بالا غیر مؤکدہ سنتیں ثابت ہوتی ہیں۔
عبداللہ بن مغفلؓ کی حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ لمن شاء یعنی جو چاہئے یہ رکعت پڑھ سکتا ہے جس کا مطلب ہے پڑھنا بھی ضروری نہیں ہے۔
جہاں تک آپ کے سوال کاتعلق ہے تو وہ پوری طرح واضح نہیں ہے ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں تو شاید آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ چار رکعات والی نماز میں دوسری رکعت یعنی پہلے تشہد کے بعد اٹھ کر جب تیسری رکعت شروع کرے تو اعوذ اور بسم اللہ پڑھے یا نہ پڑھے اور پہلے تشہد میں صرف التحیات پڑھے یا درود شریف اور دعا بھی۔
نماز شروع کرنے کے بعد یعنی دعائے استفتاح سبحانک اللہ وغیرہ کے بعد اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنا تو احادیث سے ثابت ہے لیکن اس کے بعد دوسری تیسری یا چوتھی رکعت شروع کرنے پہلے سے تعوذ اور تسمیہ (اعوذ باللہ اور بسم اللہ ) پڑھنے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ جو لوگ اعوذ باللہ پڑھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے کہ﴿فاذا قرات القرآن فاستعذ بالله﴾ کہ جب قرآن پڑھو تو اس سے پہلے اعوذ پڑھا کرو۔ا ب جب سورہ فاتحہ قرآن میں سے ہے تو جب بھی یہ پڑھی جائے گی اس کے ساتھ اعوذ پڑھی جائے گی۔اسی طرح بسم اللہ کا ذکر بھی آتا ہے۔
لیکن جو لوگ پہلی رکعت کے علاوہ دوسری رکعات میں الحمد شریف کے ساتھ کچھ اور پڑھنے کے قائل نہیں ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں ہے کہ
’’کان رسول الله ﷺ اذا نهض فی الرکعة الثانیة افتتح القراة با الحمد لله رب العالمین ولم یسکت‘‘ (مسلم مترجم ج۱ کتاب المساجد باب مایقال بین تکبیرة الاحرام والقراءة ۱۵۴)
’’کہ رسول اللہ ﷺ جب دوسری رکعت کے لئے اٹھتے تو آپ قرأت سورہ فاتحہ سے شروع کرتے اور سکوت نہ فرماتے ‘یعنی اس سے پہلے کوئی چیز خاموشی سے نہ پڑھتے۔‘‘
دونوں طرف کے دلائل کا جائز ہ لینے کے بعد اس مسئلے میں دونوں طرح سے جواز معلوم ہوتا ہے یعنی پڑھ بھی سکتے ہیں اور نہ بھی پڑھیں تو جائز ہے بلکہ امام شوکائی نے نہ پڑھنے کو افضل و احوط قرار دیا ہے کیونکہ حدیث میں یہ پہلی رکعت کے علاوہ کسی جگہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب