السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بریڈ فورڈ سے سلیم خان لکھتے ہیں:
تارک سنت موکدہ (سنت موکدہ کوچھوڑنے والا یا بسبب غفلت ادا نہ کرنے والا) گناہ کا مرتکب ہوگا یا نہیں ؟
مثال کے طور پر فرض نمازوں کے ساتھ ہم جو سنتیں (موکدہ) پرھتے ہیں۔ اگر صرف فرض پڑھے جائیں اور سنتوں کو چھوڑدیں تو کیا ایسا اقدام باعث گناہ ہوگا یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح احادیث میں سنن و نوافل کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور خاص طور پر سنن موکدہ کی نبی کریمﷺ نے بہت زیادہ تر غیب بھی دلائی ہے ۔ اس سلسلے میں درج ذیل احادیث خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
(عن عائشه رضی الله عنها قالت کان النبی ﷺ یصلی قبل الظهر اربعا و بعدها رکعتیں و بعد المغرب ثنتین و بعد العشاء رکعتین و قبل الفجر رکعتیں) (ابو داؤد کتاب الصلاة باب تفریع ابواب اتطوع (۱۲۵۱)مسلم کتاب صلاۃ المسافرین باب جواز النافلة و قاعدا (۱۰۵۔۷۳۰)
’’ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ظہرسے پہلے چار اور بعد میں دو رکعت پڑھتے اور مغرب کے بعد دو عشاء کے بعد دو اور فجر سےپہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ سےمروی ہے کہ آپ نے ان مذکورہ بارہ رکعات کےبارے میں فرمایا کہ جس نے ان کی پابندی کی اللہ تعالیٰ اس کےلئے جنت میں گھر بنائے گا۔
حضرت ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص نے فرضوں کے علاوہ بارہ رکعت پڑھیں اللہ کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘
مسلم شریف کہ ایک اور روایت ہے کہ جس نے فجر کی دورکعت پڑھیں تو اس کےلئے دنیا اور اس میں جو کچھ ہے ان سب سے بہتر ہے۔
ا س کے علاوہ مختلف نمازوں کے ساتھ سنن ونوافل کی فضیلت کا الگ ذکر بھی احادیث میں آتا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ ان سنن راتبہ کہ حیثیت کیا ہے اور کیا انہیں چھوڑنے والا گناہ کا مرتکب ہوگا؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑی فضیلت اور اجر کے باوجود یہ سنتیں فرض اور واجب بہر حال نہیں ہیں اس لئے ان کےترک کرنے پر وہ گناہ ہرگز لازم نہیں آتے جیسے فرض یا واجب کےترک کرنے سے آتا ہے۔
اس مسئلے کو ذرا تفصیل کےساتھ بیان کرنے اور سمجھانے کے لئے ہم اسے تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱۔عذر یا بغیر عذر کے ان سنتوں کا کبھی کبھی ترک کردینا۔
۲۔عذر یا بغیر عذر کے ان سنتوں کو اکثر و بیشتر یا ہمیشہ ترک کردینا۔
۳۔ ان سنتوں کو حقیر یا معمولی سمجھ کرترک کردینا۔
(۱)جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے یعنی کبھی کسی مجبوری جیسے وقت کی قلت وغیرہ یا محض غفلت کی بنا پر ان سنتوں کا ترک کردینا بلاشبہ ایسا شخص ایک افضل عمل سے محروم تو ضرور ہوگا مگر اسے گناہ گار قرار دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں ہے کیونکہ نمازیں پانچ ہیں۔ ان پانچ نمازوں سے مراد فرض ہیں نہ کہ سنن و نوافل۔
جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:’’نجد کا ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور پوچھا : اللہ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کہ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا پانچ۔ اس نے عرض کیا کہ (ھل علی غیرھا) (سنن ابوداؤد مترجم ج ۱ کتاب الصلاة باب فرض الصلاة ص ۱۸۹ رقم الحدیث ۳۹۰)کہ کیا ان کےعلاوہ بھی مجھ پر کچھ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: (لا ان نطوع) ’’کہ نہیں الا یہ کہ تواپنی مرضی سےسنتیں یا نفل پڑھے۔‘‘
ظاہر ہے اگر سنتیں لازمی ہوتیں اور ان کے ترک سے گناہ لازم آتا تو آپ اس موقع پر اس کی ضرور وضاحت فرماتے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بنیﷺ نے جب حضرت معاذ کو یمن بھیجا تو انہیں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ «ان اللہ افتراض علیهم خمس صلوت فی الیوم واللیلة» (ابن خزیمۃ کتاب الصلاۃ ج ۱ باب فرض الصلاۃ الخمس والدلیل علی ان لا فرض من الصلاة الخمس ص ۱۵۷ ابوداؤد ج۱ کتاب الصلاة ص ۶۲)
’’کہ اللہ نے ان لوگوں پر (یعنی مسلمان ہونے والوں پر) دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔یہاں بھی سنن و نوافل کا ذکر نہیں۔‘‘
اور حضرت معازؓ کا یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے آخری ایام کا ہے۔
یہ مذکورہ دونوں حدیثیں بخاری و مسلم میں ہیں۔ ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سنن کے تارک کو گناہ گار یا معصیت کامرتکب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اور اسے گناہ کا مرتکب ثابت کرنے کے کوئی واضح دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’ بہشتی زیور‘‘ میں لکھا ہے کہ قضا فقط فرض نمازوں اور وتر کی پڑھی جاتی ہے’ سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی سنتوں کا ترک گناہ نہیں ورنہ ان کی قضا لازم ہوتی۔
ہمارے ہاں بعض لوگوں میں یہ عجیب روایت چل نکلی ہے کہ وہ سنن و نوافل کی پابندی بھی فرض نماز کی طرح کرتے اور نفلوں کی مختلف نمازوں کےساتھ تعداد مقرر کرکے ان کو ہر حال میں ادا کرتے ہیں اور پھر بیٹھ کر پڑھتے اور انہیں چھوڑنا گناہ خیال کرتے ہیں۔
حالانکہ نوافل کے بارے میں تو خاص طور پر یہ چیز بالکل بے اصل اور غیر ثابت ہے پھر اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ نماز کی شکل اور اس کی صحیح ادائیگی کے بجائے تعداد رکعات پوری کرنے کے چکر میں رہتے ہیں اور اطمینان و سکون سے پڑھنے کی بجائے جلدی جلدی رکعات پوری کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ مثلاً عشاء کی نماز کی برصغیر کے لوگو ں نے ۱۷ رکعات اس طرح مقرر کی ہوئی ہیں جس طرح یہ ۱۷ کا عدد فرض ہے اور پھر جلدی جلدی اس تعداد سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرا نقصان یہ بھی ہے کہ بچے یا نئے نمازی تو ۱۷ کا نام سن کر ہی گھبرا جاتے ہیں۔ اس لئے بہتر و افضل یہی ہے کہ فرائض کے بعد ان سنن و نوافل کو ان کے مقام کے لحاظ سے ہی ادا کیا جائے۔
(۲)دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو عذر یا بغیر عذر کے اسن سنتوں کو اکثروبیشتر ترک کردیتے ہیں اور بہت کم ادا کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث کو کوئی ایسی دلیل تو ہمارے پاس نہیں کہ ان لوگوں کو ہم گناہ کا مرتکب قرار دے سکیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ یہ لوگ خیر کثیر ار اجر جزیل سےمحروم رہتے ہیں اور یہ محرومی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں جس میں آپ نے فرمایا کہ فرض نماز کے ادا کرنے والے کے فرض میں جو نقص اور کمی رہ جاتی ہے‘ اسے سنتوں اور نفلوں کے ذریعے پورا کیا جاتاہے۔
اور ہم میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس کے فرض کامل اور مکمل ہیں اور نقص و کمی سے خالی ہیں ؟ ہم میں سے ہر ایک اس کمی کو پورا کرنے کا محتاج ہے اور اگر وہ سنن ونوافل سے بھی محروم ہوگیا تو پھر اس کی یہ کمی کیسے پوری ہوگی؟ اس لئے بہتر اور افضل یہی ہےکہ ان سنن کا اہتمام کیا جائے تا کہ یہ نقصان اسے گناہ کے قریب نہ لے جائے۔
(۳)جس طرح بعض لوگوں نے نفلوں کو فرض کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ نفل کی پابندی بھی فرض کی طرح کرتے ہیں ۔ اسی طرح ایک تیسری قسم ان لوگوں کی بھی ہے جو ان سنن کو حقیر اور معمولی سمجھ کر ترک کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ہوا سنتیں ہی تو تھیں۔ ان کی کیا حیثیت ہے؟ سنت کی تحقیرواستخفاف جرم ہے اور ایسا شخص یقیناً گناہ کامرتکب ہوگا بلکہ سنت کو خاطر میں نہ لانے والا یا اس کا مذاق اڑانے والا کفر تک بھی پہنچ سکتا ہے ۔ اسلئے جو شخص نماز کی ان سنتوں کو حقیر و معمولی سمجھ کر ان کی ناقدری کرتا ہے اور انہیں ترک کردیتا ہے ایسا شخص اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ اس حد تک جانے سے احتراز کرناچاہئے اور معصیت سےبچنا چاہئے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ فرض نمازیں پانچ ہی ہیں وتر کے وجوب کےبارے میں اختلاف ہے بعض نے واجب کہا بعض نے سنت کہالیکن وتر کے بارے میں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی پابندی کی جائے۔ جہاں تک سنتوں کا تعلق ہے تو ترک کی تینوں اشکال کی شرعی حیثیت اپنے علم کے مطابق اپنے علم کے مطابق ہم نے تحریر کردی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب