سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) کیا ٹائی پہن کر نماز ہوجاتی ہے؟

  • 13831
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2850

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل یہ ایک مسئلہ ہے کہ ٹائی پہن کرنماز پڑھنا ناجائز ہے اورکچھ لوگ یعنی مولوی صاحبان تو کہتے ہیں کہ عیسائی مذہب کا خاص راز ہے۔ لیکن میری معلومات (عیسائی لوگوں ) کے مطابق عیسائی مذہب میں    نہیں ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ٹائی پہن کر Reason  اس کا کوئی نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ تفصیلات کے ساتھ جواب دے کر دل کا شک وشبہ دور کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ٹائی کے بارے میں علماء اور اہل علم کی  دورائیں ہیں ۔ ایک یہ کہ عیسائیوں کا کوئی مذہبی نشان ہے اور دوسری یہ کہ عام لباس کی طرح ہے اس میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اب پہلی رائے کے مطابق اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عیسائیوں کے نزدیک اس کو کوئی مذہبی حیثیت ہے تو نماز اورنماز کے علاوہ دونوں حالتوں میں اس کا پہننا جائز نہیں ہے اور اگر اس کے بارے میں یہ یقین ہوجائے  کہ مذہبی طور پر اس کی کوئی اہمیت نہیں تو پھر عیسائیوں کا خصوصی شعار ہونے کے لحاظ سے اس کو ناجائز نہیں کہاجائے گا۔لیکن ایک بات بہرحال قابل غور ہے کہ اس کی ابتدا کیوں اور کیسے ہوئی۔لباس میں تو اس کی خاص ضرورت نہیں ۔ اب تویورپ والے بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ خواہ مخواہ کا بوجھ ہے اور اس سے تنگی محسوس ہوتی ہے۔ اس لئے محض لباس سمجھ کر اس کو پہننا ناقابل فہم ہے ۔ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی کہ اسے اس طرز پر رائج کیا گیا۔ ایک اور بات بھی متفق علیہ ہے کہ اس کی ابتدا ء عیسائیوں نے کی۔ مسلمانوں کے لبا س کا کسی دور میں بھی ٹائی حصہ نہیں رہی اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ مسلمانوں نے اس کو نہ کسی ضرورت کے تحت اختیار کیا ہے اور نہ لباس سمجھ کر بلکہ ہمارے لوگوں نے عیسائیوں کی تقلید اور دیکھا دیکھی میں اس کو پہننا شروع کر دیا ہے اس لئے میری رائے میں اگر کوئی شخص کسی مجبوری کے بغیر محض انگریز کی تقلید میں اسے پسند کرکے اختیار کرتاہے تو یہ جائز نہیں ہوگا کیونکہ کسی چیز کو بھی دوسری قوم سے مرعوب یا متاثر ہو کر قبول کرنا اسلام میں جائز نہیں (سوائے شدید ضرورت یا مجبوری کے) اس سلسلے میں مندرجہ ذیل احادیث قابل غور ہیں۔

(من تشبه یقوم فهو منهم)  (المعجم اثأوسط للطبرانی ج۹ ص۱۵۱ رقم الحدیث ۸۳۲۳)

’’جس شخص کسی نے کسی دوسری قوم کی تقلید کی وہ ان ہی میں سے سمجھا جائے گا۔‘‘

یعنی جو شخص کسی دوسری قوم کی عادات و اطوار کو اپناتا ہے یا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی لوگوں میں سے ہوگا۔ اسی طرح دوسری حدیث کے الفاظ

(خالفوا الیھود والنصری)

(یہود اور نصاریٰ کی مخالفت کرو) یعنی یونہی  بلا ضرورت ’ محض ان کی ترقی اور شان وشوکت سے مرعوب ہو کر ان کے پیچھے نہ لگیں بلکہ اس کے برعکس ایسے کاموں  میں ان کی مخالفت کریں۔تیسری حدیث ہے

’’دع مایریبک الی مالا یریبک‘‘(مشکوٰۃ للالبانی ج۲ کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال ص ۸۴۵رقم الحدیث ۲۷۷۳)

’’یعنی جس چیز کے جائز یا ناجائز ہونے میں شک ہو بہتر یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر ایسی چیز اختیار کی جائے جس  میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔‘‘

چوتھی حدیث ہے

ان الحلال بین و ان الحرام بین و بینهما مشتبهات لا یعلمهن کثیر من الناس فمن اتقی الشبهات فقد استبراء لدینه و عرضه و من وقع فی الشبهات وقع في الحرام(سنن ابی داؤد ج۲ کتاب السبوع باب اجتناب الشبهات ص ۱۱۷)

’’یعنی حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ۔ ان کے درمیان کچھ ایسے کام بھی ہیں جو واضح نہیں ہیں بلکہ ان میں شبہ ہے اوراکثر لوگوں کو ان کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں جو شبہات سے دور رہا اس نے دین اور عزت کو محفوظ کر لیا اور اس نے شبہات کی پرواہ نہ کی تو اس کے حرام میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘

لہٰذا اس طرح کے مسائل میں احتیاط بہرحال بہتر ہے‘ خصوصاً غیر مسلموں کے ایسے کام جن میں علمی سائنسی یا فوجی فوائد بھی نہیں ہیں۔ محض دیکھا دیکھی اور شان و شوکت کے لئے ان کو اپنا لینا درست نہیں ہے۔ جو قومیں دوسروں کی تہذیب و ثقافت کو بغیر کسی دینی یا دنیاوی مقصد اور بغیر کسی ضرورت کے قبول کرلیتی ہیں وہ کبھی بھی دنیا میں ترقی ورفعت کی منازل طے  نہیں کرسکتیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص163

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ