السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بریڈ فورڈ سے سلیم خاں لکھتے ہیں:
آج کل چرس’افیون اور ہیروئن (پاؤڈر) کا کاروبا ر زوروں پر ہے اور اس ضمن میں کئی لوگوں نے کافی رقوم بھی کمائی ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص نے گزشتہ دنوں پاؤڈر بیچ کرکافی رقم کمائی اور پھر اس رقم سے چند لاکھ روپے مسجد کے لئے دینے کا وعدہ کیا۔اس پر لوگوں میں کچھ بحث مباحثہ بھی ہوا۔ جس کےنتیجے میں سنا ہے ایک مفتی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ اس آدمی سے یہ رقم لے کر مسجد بنانا جائز ہے۔ تو براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہ نمائی فرما دیں کہ کیا ایسے کاروبار سے حاصل شدہ رقم دین کے کاموں خصوصاً مسجد کی تعمیر میں استعمال کرنی جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چرس اور افیون کا کاروبار ہو یا کسی دوسرے حرام طریقے سے کمائی ہوئی دولت ہو ایسی رقم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اجروثواب اور حرام مال پلید ہوتا ہے اور اللہ پلید مال کو ناپسند کرتا ہے اور نہ قبول اس لئے مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں اگر علم ہو کہ یہ مال حرام کی کمائی کا ہے تو اسے تعمیر مسجد میں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔حدیث شریف میں ہے۔
’’ان الله طیب لا یقبل الا طیبا‘‘ (مسلم مترجم ج ۳ کتاب الذکاة باب بیان ان اسم الصدقة یقع علی کل نوع من المعروف ص۴۳)
’’اللہ پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی پسند کرتا ہے۔‘‘
مساجد کی تعمیر میں حلال مال کا اہتمام انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں اسلام سےپہلے کفار مکہ نے بھی بیت اللہ کی تعمیر کے وقت پورا اہتمام کیا تھا کہ اس کی تعمیر میں حلال مال خرچ ہوا اور جب ان کے پاس حلال مال کی کمائی واقع ہوگئی تو اتنی جگہ انہوں نے خالی چھوڑدی جواب بھی خالی ہے اور حطیم کہلاتی ہے۔
جن مفتی صاحب نے حرام مال سے مسجد تعمیر کرنے کو جائز قرار دیا ہے اگر وہ قرآن وحدیث کے دلائل تحریر فرمادیں توشاید ہمیں بھی فائدہ ہوگا اور ہمارے ناقص علم میں اضافہ بھی ہوجائے گا۔ بہرحال ہمیں قرآن و حدیث یا بزرگان دین کے اقوال سے ایسی کوئی دلیل نہیں مل کہ ہم اسے جائز قرار دے سکیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب