سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) بنک سے قرضہ لیکر بنائی ہوئی مسجد میں نماز جائز ہے؟

  • 13815
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1205

سوال

(45) بنک سے قرضہ لیکر بنائی ہوئی مسجد میں نماز جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کارڈف سے محمد دین صاحب لکھتے ہیں۔ یہاں کارڈف شہر میں پہلے سے تین مسجدیں منظور شدہ ہیں لیکن ہمارے اس علاقے میں مسجد کی ضرورت تھی چنانچہ اس ضرورت کے پیش نظر قریباً ساڑھے تین سال سے ایک مکان کو مسجد میں تبدیل کرکے اس میں عبادت کی جارہی ہے لیکن اب تک اس کی بحیثیت مسجد منظوری نہیں ملی۔ چنانچہ یہاں کی مسلم ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی آف ویلز نے قریباً ایک سال پیشتر مسجد کے لئے ایک بڑی جگہ کا ۵۱ ہزار پونڈ میں سودا کیا۔ سودا کرتے وقت یو ایم او نے پوری عمارت کی رقم بطور قرض حسنہ دینے کا وعدہ کیا ۔ چنانچہ اس امید پر سوسائٹی مذکورہ نے عمارت کا دس فی صد بیعانہ قریباً چھ ہزار پونڈ ادا کردیا اور باقی رقم کا یو۔ ایم۔ او کی طرف سے انتظار کرنے لگے۔ عین موقع پر جب بقایا قیمت کی ادائیگی کا وقت آیا تو یو۔ایم ۔اور نے اپنی مجبوریاں ظاہر کرکے مدد کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ سوسائٹی مذکور نے ممبران سے صلاح ومشورہ کرگے میٹنگ بلائی جس میں ممبران کی اکثریت نے سود پر رقم لینے سے منع کیا اور یہ تجویز پیش کی کہ سود پر رقم لینے سے چھ ہزار بیعانہ کا نقصان بہتر ہے۔کچھ دیر بعد سوسائٹی مذکور کے عہدے داروں نے اپنی ذمہ داری پر بینک سے سور پر رقم کے کر عمارت خرید لی۔ اس پر بہت سے لوگوں نے سخت اعتراض کیا اور آج تک اس عمارت میں سود کی وجہ سے نماز بھی ادا نہیں کی۔ اب زیادہ رقم ادا ہوچکی ہے اور باقی کی بھی چند ہفتوں میں ادا ہونے کی امید ہے۔ پہلی شش ماہی کا پانچ ہزار پونڈ کا سود ایک تاجر نے ادا کیا۔ کیا یہ ساری رقم ادا ہوچکنے کے بعد اس عمارت کو مسجد کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات بڑی افسوس ناک ہے کہ اس ملک میں اکثر مسلمان سود کے بارے میں ہرگز احتیاط نہیں کرتے اور سود ادا کرنے کے سلسلے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے اور اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ مساجد کی تعمیر پر لی گئی رقم پر سودادا کیاجائے۔ یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے جس کا کچھ لوگ ارتکاب کررہے ہیں۔ سود کے بارے میں قرآن حکیم میں کتنی سخت وعید آئی ہے اور اتنے شدید الفاظ کسی دوسرے حرام کام کے بارے میں شاید نہیں آئے۔ ارشاد ربانی ہے:

’’ا ے ایمان والو!اللہ سے ڈر جاؤ اور باقی سود کی وصولی ترک کردو اگر تم واقعی مومن ہو اور اگر تم ایسا نہیں کروگے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کرو۔‘‘ (البقرہ:۸ ۷ ۲  ’۹ ۷ ۲ )  

اس شخص کو کہاں اور کیسے پناہ ملے گی جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف اعلان جنگ کرے۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مساجد کمیٹیوں اور اسلامی تنظیموں کی زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہرگز نہ دیں جو حرام و حلال کی تمیز نہیں کرتے بلکہ حرام کھانے یا کھلانے پر اتنے دلیر ہوں کہ مساجد کے تقدس کی پرواہ بھی نہ کریں۔ بہرحال سود دینے کا سارا گناہ سوسائٹی کے عہدے داروں کے سر ہے اور اگر انہوں نے بینک کا سود اس چندے سے ادا کیا جو مسلمانوں سے مسجد کے نام پر اکٹھا کیا گیا تھا تو جرم اور زیادہ سنگین ہے۔

باقی جہاں تک اس مسجد میں نماز پڑھنے کا تعلق ہے تو اس میں  بظاہر کوئی شرعی رکاوٹ نہیں بلکہ یہ بوجھ ان لوگوں پر ہوگا جو اس فعل بد کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لیکن یہ مسجد کسی کی ملکیت تو نہیں بنی۔ اللہ کے نام پر وقف ہے اس لئے اس میں نماز پڑھنا عبادت کرنا اور ہر قسم کے دینی شعار کی ادائیگی جائز و درست ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص146

محدث فتویٰ

تبصرے