السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کارڈف سے غلام حسین پوچھتے ہیں کیا مسجد سود کی رقم سے بنائی جاسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حرام مال سے مسجد بنانا بالااتفاق ممنوع وناجائز ہے ۔ کیونکہ حرام اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مسلم شریف میں مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:’’ان الله طیب لا یقبل الا طیبا‘‘ (مسلم مترجم ج۳ کتاب الذکاة باب بیان ان اسم الصدقة یقع علی کل نوع من المعروف ص ۴۳) ’’اللہ پاک ہے اور پاک چیزیں قبول کرتا ہے۔‘‘ اس طرح سودی قرض لے کر مسجد بنانا بھی ناجائز ہے کیونکہ وہ بھی حرام مال ہے۔ بعض ائمہ نے ایسی مساجد کو مسجد ضرار کی قسم سے شمار کیا ہے جیسا کہ تفسیر کشاف اور مدارک میں اس کی وضاحت ہے کہ
’’کل مسجد بنی مباهاة اوریاء اوسمعة او لغرض سوی ابتغا وجه الله اوبمال غیر طیب فهو لا حق مسجد الضرار‘‘
یعنی ہر وہ مسجد جو فخر‘ ریاکاری‘ شہرت یا اللہ کی رضامندی کی بجائے کسی اور غرض کے لئے تعمیر کی جائے یا ناپاک (حرام) مال سے بنائی جائے وہ مسجد ضرار کی طرح ہے۔اگر کسی مسجد میں حرام کے ساتھ حلال مال بھی خرچ کیا گیا ہے تب بھی مخلوط ہونے کی وجہ سے اس کی طہارت باقی نہیں رہتی اور اصولی طور پر ’’اذا اجتمع الحلال و الحرام غلب الحرام‘‘ ’’جب حلال و حرام اکٹھے ہوجائیں تو حرام غالب آجاتا ہے۔‘‘ مندرجہ بالا دلائل سے یہی واضح ہوتا ہے کہ ایسی جگہیں جو حرام کمائی سے بنائی جائیں وہ مسجد کا حکم نہیں رکھتیں اور ان میں نماز صحیح نہیں ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب