السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مانچسٹر سے محمد اسحاق صاحب لکھتے ہیں میں سردی کی وجہ سے صبح کی نماز کا وضو کرکے اونی یا سوتی جراب پہن لیتا ہوں اور پھر مسح کرتا ہوں میں جب مسجد میں وضو کرتے وقت پاؤں پر مسح کرتا ہوں تو کئی آدمی کہتے ہیں کہ جراب پر مسح کرنے سے وضو نہیں ہوتا۔ چمڑے کے موزوں پر مسح کرناجائز ہے سوتی یا اونی جرابوں پر نہیں ہوتا۔جب کہ میں نے سنا ہے کہ جراب پر مسح جائز ہے بعض لوگ کہتے ہیں جس جراب میں پانی چلا جائے اس پر مسح نہیں ہوسکتا اور بعض کہتے ہیں کہ جس جراب کو پہن کر دومیل پیدل چلے اور وہ پھٹ جائے تو اس پر جائز نہیں۔
حدیث کی رو سے مسح کی حقیقت سے آگاہ کریں’نوازش ہوگی۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جرابوں اور موزوں پر مسح کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔جہاں تک چمڑے کے موزوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ ان پر مسح کرنا جائز ہے۔ جرابوں پر بھی بنیادی طور پر تمام ائمہ اور علماء کے نزدیک مسح کرنا جائز ہے فرق اتنا ہے کہ بعض نے کچھ شرطیں لگائی ہیں کہ اگر وہ شرائط پوری ہوں تو پھر جرابوں پر مسح کرناجائز ہوگا ورنہ نہیں۔جیسا کہ آپ نے بھی اپنے خط میں بعض شرائط کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں جو احادیث ہیں ان میں کسی قسم کی شرائط کا ذکر نہیں۔
ذیل میں ہم وہ مرفوع احادیث پیش کرتے ہیں جن کے عموم یا خصوص سے جرابوں پر مسح ثابت ہوتا ہے۔
پہلی حدیث: امام احمد نے اپنی مسند میں اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے کہ
بعث رسول اللهﷺ سریة فاصابهم البرد فلما قدمو علی النبی ﷺ شکوا الیه ما اصابهم من البرد فامرهم ان یمسحوا علی العصائب والتساخین (سنن ابی داؤد مترجم ج۱ ص ۹۳ باب لمسح علی العمامة)
’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے ایک قافلہ بھیجا تو سرد موسم کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی جب وہ واپس نبی ﷺ کے پاس آئے تو سردی کی تکلیف کی شکایت آپ سے کی تو آپ ﷺ نے انہیں پگڑیوں اور تساخین پر مسح کرنے کا حکم دیا۔‘‘
عربی میں ’’تساخین‘‘ ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے پاؤں گرم رکھے جائیں ’ جس میں موزے اور جراب دونوں شامل ہیں۔
دوسری حدیث: یہ حدیث امام احمدؒ نے اپنی مسند اور امام ترمذیؒ اور امام ابن ماجہؒ نے اپنی اپنی سنن میں اس کی تخریج کی ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ روایت کرتے ہیں کہ
"ان رسول اللہ ﷺ توضاء و مسح علی الجوربین والنعلین" (ترمذي ج ۱ باب المسح علی الجورب ص ۱۵)
’’نبی کریمﷺ نے وضو فرمایا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا‘‘
مذکورہ حدیث کی کتابوں کے ’’باب المسح علی الجوربین‘‘ میں یہ حدیث روایت کی گئی ہے:
تیسری حدیث: حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی روایت امام ابن ماجہؓ نے اپنی سنن میں بیان کی ہے۔
ان رسول اللہﷺ توضاء و مسح علی الجوربین والنعلین (ابن ماجه ج۱ کتاب الطہارة باب ماجاء فی المسح علي الجوربین والنعلین ص ۲۹۰۔ رقم الحدیث ۵۶۰)
’’حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے وضو فرمایا اور جرابوں اور موزوں پر مسح کیا۔‘‘
ان احادیث میں ایک تو واضح طور پر جرابوں کے الفاظ آئے ہیں اور دوسرا ان کے ساتھ کسی قسم کی شرائط کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ میں سے ممتاز شخصیتوں سے جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔ جیسے عمر بن خطاب‘ علی بن ابی طالب‘ ابومسعود ‘ ابن عباس‘ ابن عمر‘ بلالؓ‘ ابوموسیٰ اشعری رضوان اللہ علیہم اجمیعن۔
اور تابعین میں قتادہ ‘ابن المسیب‘عطاء‘نخعی‘ابن جبیر اور نافع رحمہم اللہ اجمیعن کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔
اس مسئلے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی وہ وضاحت مفید ثابت ہوگی جو انہوں نے ایک طالب علم کے سوال کے جواب میں فرمائی تھی ۔اس طالب علم نے اسکاٹ لینڈ سے درج ذیل سوال مولانا مرحوم کی خدمت میں ارسال کیا تھا۔
’’موزوں اور جرابوں پر مسح کے بارے میں علماء کےدرمیان اختلاف پایا جاتا ہے میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں مقیم ہوں۔ یہاں جاڑے کا موسم میں سخت سردی پڑتی ہے اور اونی جراب کا ہر وقت پہننا ناگزیر ہے۔ کیا ایسی جراب پر بھی مسح کیاجاسکتا ہے؟ براہ کرم اپنی تحقیق احکام شریعت کی روشنی میں تحریر فرمائیں۔‘‘
مولانا اس کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’جہاں تک چمڑے کےموزوں پر مسح کرنے کا تعلق ہے اس کے جواز پر قریب قریب تمام اہل سنت کا اتفاق ہے مگر سوتی اور اونی جرابوں کے بارے میں عموماً ہمارے فقہاء نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ موٹی ہوں اور شفاف نہ ہوں کہ ان کے نیچے سے پاؤں کی جلد نظر آئے اور وہ کسی قسم کی بندش کے بغیر خود قائم رہ سکیں۔
میں نے اپنی امکانی حد تک یہ تلاش کرنے کی کوشش کی کہ ان شرائط کا ماخذ کیا ہے مگر سنت میں کوئی ایسی چیزنہ مل سکی۔ سنت سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا ہے۔ نسائی کے سوا کتب سنن میں اور مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہؓ کی روایت موجود ہے کہ نبیﷺ نے وضو کیا اور اپنی جرابوں اورجوتوں پر مسح فرمایا۔ ابوداؤد کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ‘ عبداللہ بن مسعودؓ’ براء بن عازبؓ‘ انس بن مالکؓ‘ ابوامامہؓ‘ سہل بن سعدؓ‘ اور عمرو بن حریثؓ نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔ نیز حضرت عمرؓ اور ابن عباسؓ سے بھی یہ فعل مروی ہے بلکہ بیہقی نے ابن عباسؓ اور انس بن مالکؓ سے اور طحاوی نے اوس بن ابی اوسؓ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے صرف جوتوں پر مسح فرمایا ہے اس میں جرابوں کاذکر نہیں اور یہی عمل حضرت علیؓ سے بھی منقول ہے۔ ان مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف جراب اور صرف جوتے اور جرابیں پہنے ہوئے جوتے پر مسح کرنابھی اسی طرح جائز ہے جس طرح چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا۔ ان روایات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ نبی ﷺ نے فقہا کی تجویز کردہ شرائط میں سے کوئی شرط بیان فرمائی ہو اور نہ ہی یہ ذکر کسی جگہ ملتا ہے کہ جن جرابوں پر حضورﷺ نے اور مذکورہ بالا صحابہؓ نے مسح فرمایا وہ کس قسم کی تھیں۔ اس لئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فقہاء کی عائد کردہ ان شرائط کو ئی ماخذ نہیں ہے اور فقہاء چونکہ شارع نہیں ہیں اس لئے ان کی شرطون پر اگر کوئی عمل نہ کرے تو وہ گنہگار نہیں ہوسکتا۔
امام شافعی ؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ جرابوں پر اس صورت میں آدمی مسح کرسکتا ہے کہ جب آدمی جوتے اوپر سے پہنے رہے۔ لیکن اوپر جن صحابہؓ کے آثار نقل کئےگئے ان میں سے کسی نے بھی اس شرط کی پابندی نہیں کہ ہے۔
مسح علی الخفین کے مسئلے پر غور کرکے میں نے جوکچھ سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ دراصل تیمم کی طرح ایک سہولت ہے جو اہل ایمان کو ایسی حالتوں کےلئے دی گئی ہے جبکہ وہ کسی صورت سے پاؤں ڈھانکنے رکھنے پر مجبور ہوں اور باربار پاؤں دھونا ان کے لئے موجب نقصان یا وجہ مشقت ہو۔ اس رعایت کی بنا پر اس مفروضے پر نہیں ہے کہ طہارت کےبعد موزے پہن لینے سے پاؤں نجاست سے محفوظ رہیں گے اس لئے ان کے دھونے کی ضرورت باقی نہ رہے گی بلکہ اس کی بنا اللہ کی رحمت ہے جوبندوں کو سہولت عطاکرنے کی مقتضی ہوئی۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو سردی سے یا راستے کے گردوغبار سے بچنے کےلئے یا پاؤں کے کسی زخم کی حفاظت کے لئے آدمی پہنے اورجس کے باربار اتارنے اور پھر پہننے میں آدمی کو زحمت ہو۔ اس پر مسح کیا جاسکتا ہے خواہ وہ اونی جراب ہو یا سوتی’چمڑے کا جوتا ہو یاکرمچ کایا کوئی کپڑا ہی ہو جو پاؤں پر لپٹ کرباندھ لیاگیا ہو۔‘‘
(بحواله رسائل ومسائل جلد دوم ص ۲۵۸)
مولانا کی اس وضاحت کے بعد ان شرائط کی حیثیت معلوم ہو جاتی ہے جن کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔ بعض لوگ ان مسائل میں خواہ مخواہ الجھتے ہیں‘ اور لوگوں پر سختی کرتے ہیں۔ حالاں کہ جن کاموں میں اللہ نے رخصت دی ہے لوگوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب