سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(35) جرابوں پر مسح کرناجائز ہے؟

  • 13805
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 2363

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موزوں (جرابوں ) پر مسح کرنے کےمتعلق رہنمائی فرمائیں چونکہ اس ملک میں ہم روزی کمانے کے لئے آئے ہوئے ہیں اور اکثریت فیکٹریوں اور دفتروں میں کام کر رہی ہے۔ لہٰذا کام کے دوران کئی نمازیں آجاتی ہیں۔ توجہ رکھنے والے حضرات کام کے دوران نماز کےلئے چند منٹ نکال کر نماز اداکرلیتے ہیں۔ لیکن بعض حضرات پاؤں دھونے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے فرائض ادا کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

انگریزی تہذیب میں سنک بیسن منہ دھونے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا اس میں پاؤں دھونا معیوب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی مسلمان عوامی جگہوں پر سنک میں پاؤں دھوتا ہوا پکڑا جاتا ہے تو کافی تلخ کلامی ہوجاتی ہے۔

اس لئے آپ سے درخواست ہےکہ اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالیں کیونکہ مسلمانوں کو اس ملک میں کام اور سفر کےدوران پاؤں نہ دھونے کی وجہ سےنماز کی ادائیگی سے محروم رہنا پڑتا ہے۔

میں ذاتی طور پر کام کے دوران جرابوں پر مسح کرتا رہا ہوں۔ لیکن ایک کتاب جس کانام’’نماز کی کتاب مکمل از اکرام الحق‘‘ ہے موزوں پر مسح کرنےکا بیان کےعنوان کے تحت یہ شرائط پڑھ کر کچھ الجھن میں مبتلا ہوگیا ہوں:

’’مسئلہ موزوں اور عام جرابوں پر (خواہ اونی ہوں یا سوتی) مسح جائز نہیں ( در مختار ) کیونکہ موزوں پر مسح  جائز ہونے کےلئے سات شرائط ہیں۔

(۱)موزے وضو کی حالت میں پہنے گئے ہوں۔

(۲)وہ ٹخنوں سمیت دونوں پیروں میں پہنے گئے ہوں۔

(۳)ایسے مضبوط ہوں کہ ان کوپہن کر تین میل شرعی یا اس سے زیادہ چل سکے۔

(۴)کم ازکم پیر کی چھوٹی تین اگلیوں کے برابر پھٹے ہوئے نہ ہوں۔

(۵)بغیر کسی چیز کےباندھے ہوئے پیروں کے ساتھ لگے ہوئے ہوں۔

(۶)پانی کو جذب نہ کرتے ہوں۔ یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو ان کے نیچے کی سطح تک نہ پہنے۔

(۷)ایسے موٹے ہوں کہ ان کے نیچے کی جلد دکھائی نہ دے۔

اس میں چھ شرائط تو جرابوں پر ٹھیک بیٹھ سکتی ہے۔ لیکن شرط نمبر۶ (پانی کو جذب نہ کرتے ہوں ) پوری نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس پر شرعی بحث فرمائیں تاکہ الجھن دور ہوسکے اور پرچے میں چائع فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جرابوں پر مسح کے بارے میں جن سات شرائط کا ذکر کیا ہے ‘ان کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ اصل مسئلے پر روشنی ڈالی جائے کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ اس کے بعد ہم شرائط پر بحث کریں گے۔

جرابوں پر مسح کامسئلہ ان فقہی اور فروعی مسائل میں سے ہے جن میں فقہاء اور علماء کے درمیان علمی اختلاف پایا جاتا ہے اور دونوں طرف کےعلماء اپنی رائے کے حق میں کچھ دلائل  رکھتے ہیں‘ ہم دونوں طرف کے دلائل ذیل میں ذکر کرتےہیں اور پھر ان دلائل پر تبصرہ بھی کردیں گے جس کے بعد آپ کو یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا کہ کون سی رائے یا موقف راجح یا بہتر ہے۔

۱۔جن کے ہاں جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے ان کی سب سے بڑی دلیل یہ دو حد یثیں ہیں۔ پہلی حدیث حضرت ثوبانؓ کی ہے۔

عن ثوبان قال بعث رسول الله ﷺ سریة فاصابهم البرد فلما قدموا علی النبیﷺ شکوا الیه مااصابهم من البرد فامرهم ان یمسحوا علی لعصائب والتساخین (سنن ابوداؤد مترجم ج۱ص ۹۳ باب لمسح علی العمامة)

’’حضرت ثوبان سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک لشکر بھیجا ۔ اپنےقیام کےدوران میں اس میں شامل لوگوں کو سردی کی تکلیف ہوئی۔ واپسی پر انہوں نے حضور کے سامنے اس تکلیف کی شکایت کی تو آپ نے انہیں پگڑیوں اور تساخین (موزے و جرابوں) پر مسح کرنے کے لئے کہا۔‘‘

لفظ تساخین کا لغوی اعتبار سے موزے اور جراب دونوں پر اطلاق ہوسکتا ہے۔

دوسری حدیث حضرت مغیرہ بن شعبہ کہ ہے۔

’’عن المغیرة بن شعبة ان رسول الله ﷺ توضا و مسح علی الجوربین و النعلین‘‘ (جامع الترمذي ج۱ باب المسح علي الجوربین ص۱۵)(ابوداؤد’ ترمذي’ابن ماجه)

’’مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتیوں پر مسح کیا۔‘‘

(۲)جواز کے قائلین کی دوسری دلیل صحابہ کرامؓ  کاعمل ہے کہ چودہ ممتاز صحابہ کرامؓ جرابوں پر مسح کرتے تھے جن میں کچھ کےنام درج ذیل ہیں: عمر بن خطابؓ‘علیؓ ابن ابی طالب‘عمروؓ بن حریث‘ابن عباسؓ‘عبداللہ بن عمرؓ‘سعد بن ابی وقاصؓ‘ عمارؓ‘بلالؓ‘ ابن ابی اوفی ؓ۔

بعض نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا نام بھی ذکر کیا ہے۔

(۳)تیسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ جب موزوں پر مسح کرنے کے سب قائل ہیں تو پھر جرابوں پر مسح کرنے میں کون ساامر مانع ہے۔ کیونکہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔ دونوں کو سردی سے بچاؤ کی خاطر پہنا جاتا ہے اور دونوں کے اوپر جوتی پہنی جاتی ہے۔ معمولی فرق کا اعتبار نہیں کیاجاسکتا۔

یہ وہ تین بڑی دلیلیں ہیں جو مسح کو جائز کرنے والے پیش کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جن کے ہاں جرابوں پر مسح کرنا درست نہیں’ان کا موقف یہ ہے کہ

۱۔مسح کے ثبوت میں جو مرفوع حدیث پیش کی جاتی ہے اس میں انقطاع ہے کیونکہ راشد بن سعد اور ثوبان کے درمیان ایک راوی ساقط ہے جب کہ دوسری روایت میں شدوز پایا جاتا ہے۔

۲۔چونکہ روایات میں جرابوں کے بارے میں وضاحت نہیں ہےکہ وہ کس قسم کی ہوں اور کس چیز سے بنی ہوئی ہوں‘ لہٰذا ان روایات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔

جائزہ: مندرجہ بالا دلائل کا انصاف سے جائزہ لینے کے بعد باآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ جرابوں پر مسح کرنا بہرحال ثابت ہے اور صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد اس پر عمل پیرا رہی ہے۔ جہاں تک روایات میں انقطاع و شذوذ کاتعلق ہے تو اس بارے میں نامور محدثین نے ان اعتراضات کو قبول نہیں کیا جو ان روایتوں کےمنقطع یا شاذ ہونے کے بارے میں کئے گئے ہیں۔ دور حاضر کےعظیم محدث الشیخ محمد ناصر الدین البانی نے ان دونوں روایتوں کے حسن اور صحیح ہونے کے بارے میں مدلل بحث کی ہے یہاں اس کا مقام نہیں کیونکہ بحث خالص علمی اور دقیق ہے۔ لیکن یہ بات بہرحال تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ مذکورہ دونوں روایتیں قابل حجت ہیں اور پھر اس سے قطع نظر چودہ صحابہ کرامؓ کا عمل تو سب کے نزدیک ثابت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جرابوں پر مسح کرنے کے لئے ان کا عمل ہی ثبوت کےلئے کافی ہے۔

اس کے علاوہ ائمہ اربعہ میں امام شافعی ؓ اور امام احمدؓ دونوں کے قول جرابوں پر مسح کے جواز میں بالکل واضح ہیں۔ جب کہ امام مالک ؒ کا ایک قول بھی جواز کے بارے میں نقل کیاگیا ہے۔ احناف میں امام ابویوسفؓ اورامام محمدؓ جواز کے قائل ہیں اور حضرت امام ابو حنیفہؓ کے بارے میں بعض لوگوں نے رجوع نقل کیا ہے۔

باقی آپ نے جو سات شرائط نقل کی ہیں وہ بعض فقہاء نے محض احتیاط کی خاطر ذکر کی ہیں‘ ورنہ احادیث میں یہ شرائط ثابت نہیں ہیں ’اس لئے کہ حدیث میں لفظ جو رب آیا ہے جس کےمعانی عربی کی معتبر ڈکشنریوں میں یہ مذکور ہیں: پاؤں کا غلاف ۱۔پاؤں کا غلاف جو اون کا بناہو اور سردی سے بچنے کے لئے پہنا جائے ۲۔موزے کی شکل کا وہ غلاف جوسوتی ہو یا اونی ۳۔موزے کی طرز کی وہ چیز جوپاؤں پر پہنی جائے اور جو چمڑے کے علاوہ کسی اور چیز کی بنی ہو۔

جراب کے یہ معنی قاموس‘لسان العرب اور بعض دوسری مشہور ڈکشنریوں میں بیان کئے گئے ہیں۔ اس سے آپ باسانی اندازہ کرسکتے ہیں کہ شرائط کی جوپابندیاں لگائی جاتی ہے ان کی کتنی اہمیت ہے۔

آخر میں آپ کی توجہ اس بات کی طرف دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ شریعت اسلامیہ میں تمام احکام میں آسانی اور سہولت کو ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے اور تنگی و حرج سے ہمارا دین مبرا ہے۔ اس لئے ہمیں احکام پر عمل کرنے کے لئے جو آسانیاں اور رخصتیں دی گئی ہیں‘ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہمیں اپنی طرف سے شرائط لگاکر اس میں تنگی پیدا نہیں کرنی چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ پابندی نہیں لگائی کہ وہ جراب موٹی ہو یا باریک ’سفید ہویا سرخ’ نئی ہو  یا پرانی تو پھر ہمیں آخر تحصیص کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بس جو چیز آپ نے اپنے پیروں پر سردی سے بچاؤ کےلئے پہنی ہے اور اس کا وجود اس قابل ہے کہ اس پر ہاتھ پھیرے جائیں تو اطمینان کے لئے کافی ہے رہی بات احتیاط کی تو اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہر آدمی کے احتیاط کرنے کا معیار اور انداز الگ الگ ہوتا ہے۔

بہرحال پانی جذب نہ کرنے کی شرط کا حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ اس لئے آپ کو شریعت میں دی گئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ جس کی قدرمنزلت شاید گرم علاقوں میں رہنے والوں کو تو نہ ہو لیکن سرد مقامات پر رہنے والے مریضوں اور مسافروں کے لئے ایسی رخصتیں واقعی بہت بڑی نعمت ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان اللہ تعالیٰ ایحب از تقبل رخصته کمایحب العبد مغفرة ربه‘‘

’’یعنی اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتے ہیں کہ اس کے بندے اس کی طرف سے دی گئی رخصتیں قبول کریں جس طرح بندہ اللہ کی طرف سے بخشش کو پسند کرتا ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص125

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ