السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بہاول پور (پاکستان ) سے حاجی محمد صادق لکھتے ہیں : ایک سوال پیش خدمت خدمت ہے آپ موزوں پیر ائے میں جواب لکھ کر ماہنامہ
’’صراط مستقیم‘‘ میں شائع فرمادیں ـ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر ناخنوں پر ناخن پالش چڑھا ہو تو کیا وضو ہو جاتا ہے؟ (یاد رہے کہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی فتاویٰ اہل حدیث جلد دوم مسئلہ نمبر ۱ میں رقمطراز ہیں کہ وضو ہوجاتا ہے ) جبکہ جمہور علماء کا فتویٰ اس کے خلاف ہے۔
نمبر(۱)اگر وضو ہوجاتا ہے تو کتاب سنت کی رو سے دلیل؟
نمبر(۲) اگر وضو نہیں ہوتا تو یقینی امر ہے کہ انہی دلائل کی روشنی میں جو وضو کو مانع ہیں’ غسل جنابت کیسے ہوسکتا ہے؟
ایسی صورت میں جب کہ غسل جنابت کے باوجود عورت پاک نہ ہو تو اس کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد کس زمرے میں ہوگی جب کہ نہالینے کے باوجود وہ ناپاک ہے اور اسے طہارت شرعی حاصل نہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وضو کے بارے میں احادیث سے صاف طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس کے ہر اس حصے کا تر ہونا ضروری ہے جس کا وضو میں دھونا ضروری ہے۔ اگر معمولی جگہ بھی خشک وہ جائے تو وضو نہیں ہوگا۔ نبی کریمﷺ نے ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے اپنے پاؤں اچھی طرح نہیں دھوئے تھے اور کچھ جگہ خشک نظر آتی تھی‘ فرمایا:
’’ویل اللعقاب من النار‘‘(مسلم مترجم جلد۱ کتاب الطھارة باب وجوب غسل الرجلین بکما لھا ص ۳۷۷)
’’کہ ان ایزیوں کے لئے جہنم کی سزا ہے۔‘‘
اور ظاہر ہے ناخن پالش کی جب ناخن پر تہہ جم جائے تو اسے دھویا نہیں جاسکتا اور وہ جگہ خشک رہ جاتی ہے اس لئے صحیح وضو نہیں ہوگا۔ حضرت حافظ محدث روپڑیؓ کے فتوے کی دلیل آپ نے تحریر نہیں کہ انہوں نے کس دلیل سے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اگر آپ تحریر کردیتے تو شاید ہمارے لئے مفید ثابت ہوتی۔ بہرحال احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ناخن پالش اتا ر کر وضو کیا جائے ورنہ شک و شبہ کی حالت میں بھی کوئی عمل صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا۔ جہاں تک ایسی عورت کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد کا تعلق ہے اگر اسلامی شریعت کے مطابق نکاح کیا گیا تو وہ اولاد جائز اور حلال ہوگی۔ اس کے بارے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں البتہ غسل جنابت یا صحیح طہارت کے بغیر ان کی عبادت مقبول نہیں ہوگی مگر اولاد کو ناجائز قرار دینے کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب