سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(20) رسول اللہ کے ارشاد کا منکر مسلمان نہیں ہو سکتا

  • 13784
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1749

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آکسفورڈ سےمحمد طارق بنارس صاحب تحریر کرتے ہیں

   لاہور کے پرویز صاحب جن کو ’’پرویزی‘‘ فرقے کا بانی کہتے ہیں کہ تقاریر کی کئی ایک ویڈیو فلمیں اس ملک میں دیکھی جاتی ہیں‘ پچھلے دنوں ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ کیا ان کے عقائد اسلامی ہیں؟

تقدیر کا مسئلہ‘ زکوٰۃ کامسئلہ‘ حدیث شریف کی صداقت کا مسئلہ اور اس طرح کی بہت سی چیزوں کی وہ نفی کرتے ہیں۔ دلیل یہ کہ قرآن میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔ قرآن اصل ہے مگر پرویز صاحب نے قرآن  کا ترجمہ بھی نہیں کیا۔ تو پھر یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ یہ چیز قرآن میں نہیں ہے اور یہ قرآن کے خلاف ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ سنی مسلمان ’جیسے حنفی’ شافعی ’ مالکی’اہل حدیث یہ سب کیسے مسلمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارا کوئی فرقہ نہیں‘ صرف حق کومانتے ہیں۔ آپ حقیقت سے آگاہ فرمائیں۔ جو تحریر فرمائیں حق و سچ ہو جس کی دلیل بھی پیش کرسکیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص اسلام کے بنیادی ارکان و فرائض کا انکار کرتا ہے یا اسلامی احکام کے ادا کرنے کا تعین اپنی مرضی سے کرتا ہے اور نبی کریمﷺ کے صحیح اور ثابت شدہ ارشادات کا انکار کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ وہ پرویز صاحب ہوں یا کوئی دوسرا شخص’ تقدیر کا مسئلہ ہو یا زکوٰۃ کا’ یہ بنیادی اسلامی مسائل ہیں ان کا انکار کفر ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جو چیز قرآن میں نہیں وہ گویا کہ ثابت ہی نہیں یہ مفروضہ ہی غلط ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے قرآن کے بعض احکام کی وضاحت فرمائی اور ان کے ادا کرنے کا طریقہ متعین فرمایا اور خود قرآن آپ کی بعثت کی غرض و  غایت بھی یہی بیان کرتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ’’ہم نے آپ کی طرف وحی نازل کی تا کہ آپ لوگوں کےلئے اس چیز کو وضاحت سے بیان کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔‘‘ (النمل: ۴۴)

اب جس حکم کا بیان اور وضاحت آپ ﷺ فرمائیں گے ظاہر ہے وہ اصل حکم کے علاوہ ہوگا کیونکہ اللہ نے جو کچھ نازل کیا صرف اس کو پڑھنا یا دہرانا اسے بیان یا وضاحت نہیں کہاجاتا۔ اب اصل حکم کی جو آپ نے وضاحت فرمائی یہی حدیث ہے۔

مثلاً قرآن نے صلوٰۃ کا حکم دیا تو آپ نے اس کا بیان فرمایا اوربتایا کہ نماز کیسے‘ کتنی اور کب پڑھنی ہے۔ قرآن میں تو ان کاکوئی ذکر نہیں تھی اور اب اگر صلوٰۃ کامفہوم ہر آدمی اپنی مرضی اور مزاج کےمطابق بیان کرنا شروع کردے تو پھر ایک تو اس کا مفہوم واضح نہ ہوگا اور دوسرے نبی کی آمد کامقصد بھی فوت ہوجائے گا۔

اور دوسرے مقام پر اس کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ:

’’ کہ ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان دے کر بھیجا تا کہ وہ ان کےلئے صحیح صحیح واضح کرسکے۔‘‘(ابراہیم:۴)

اس طرح کی متعدد آیات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آیات کےمفہوم اور الفاظ کے معنی ہیں۔ جب اختلاف ہوجائے یا سمجھ میں نہ آئے تو اس وقت وہی تعبیر اور تشریح قابل قبول ہوگی جو خود نبی کریمﷺ نے فرمائی ہے اور اسے حدیث شریف کہاجاتا ہے جو خود رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے محفوظ ہے۔

قرآن میں نہ تو نماز کی تفصیل ہےنہ حج کے احکام اور طواف وسعی کے طریقے موجود ہیں اس کی وضاحت حضور ہی نے فرمائی ہے اسی طرح متعدد ایسے جانور اور پرندے ہیں جن کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں قرآن خاموش ہے مگر نبیﷺ نے ان کے بارے میں وضاحت فرمادی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم واضح طور پر کہتا ہے کہ: ’’کہ جو رسولﷺ تمہیں  دیں اسے قبول کریں اور جن سے وہ روکیں ان سے باز رہیں‘‘(حشر: ۷)

اور قرآن میں بیس سے زیادہ مقامات پر رسول ﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر رسول نعوذباللہ محض ڈاکیے یا پیغام رساں کی طرح ہے تو پھر اطاعت رسول ﷺ کا مفہوم کیا ہے؟

بلکہ ایک مقام پر تو یہاں تک فرمادیا کہ:

﴿مَن يُطِعِ الرَّ‌سولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...٨٠﴾... سورةالنساء

’’ کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی  کی اطاعت کی۔‘‘

کیونکہ رسول ﷺ قرآن کے علاوہ بھی جو کچھ بیان کرتا ہے وہ اللہ کی مرضی اور منشا کےمطابق ہوتا ہے۔ ارشاد قرآنی ہے

﴿ وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾... سورةالنجم

’’نبی اپنی مرضی سے بولتا ہی نہیں وہ جو کچھ بولتا ہے وہ وحی الٰہی ہوتا ہے۔‘‘

جہاں تک اس بات کا تعلق ہےکہ یہ لوگ خود کو فرقہ نہیں کہتے بلکہ حق کو ماننے والے کہتے ہیں تو دعویٰ تو ہر فرقے کا یہی ہے کہ وہ حق کو ماننے والے ہیں مگر دعویٰ کرنا یا خود اپنی زبان سے کہنا یہ کافی نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ نے بھی لکھا ہے کہ وہ خود پرویزی فرقہ ہیں جس کےبانی غلام احمد پرویز صاحب ہیں۔

کیونکہ ہمارے نزدیک نبیﷺ کےعلاوہ کسی بھی امتی اور بڑی سے بڑی شخصیت کی غلو کے ساتھ عقیدت اور اس کی باتوں کو بلاچوں چرامان لینا اور اس کے نام کی طرف نسبت کرنایہی فرقہ بندی ہے۔ شخصیت کےنام پر ہی ہمیشہ فرقے بنتے ہیں۔

  پرویز صاحب کے عقیدت مندیوں تو شخصیت پرستی کی تردید کرتے ہیں مگر وہ پرویز صاحب کی شخصیت پرستی میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ وہ ان کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے امام یا عالم کی نہ تو کتا ب پڑھتے ہیں اور نہ اس کی بات سننے یا ماننے کے لئے تیار ہیں۔ پرویز صاحب کی بات ان کےلئے حرف آخر ہے اور یہی بدترین قسم کی فرقہ بندی یا فرقہ پرستی ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن‘ رسول‘ حدیث یا سنت کی طرف جب کوئی مسلمان اپنی نسبت کرتا ہے تو اسے فرقہ بندی نہیں کہا جائے گا کیونکہ یہی دین کے مصادر و مراجع ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ اگر ابو بکرؓ عمر عثمانؓ و علیؓ کے نام پر  بھی فرقے یا گروہ بنیں گے تو وہ بھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص105

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ